ETV Bharat / state

کشمیر میں تین طلاق کے معاملات صفر کے برابر

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے بعد تنطیمِ نو قانون 2019 کے تحت تقریباً 800 نئے قوانین لاگو کئے گئے ہیں جن میں کئی متنازع بھی ہیں۔

کشمیر میں تین طلاق کے معاملات
کشمیر میں تین طلاق کے معاملات
author img

By

Published : Jul 24, 2021, 8:28 PM IST

مرکز میں زیر اقتدار بی جے پی حکومت نے کئی ریاستوں میں کچھ نئے قوانین لاگو کئے ہیں۔ کئی قوانین کے بارے میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے تحفظ کا اظہار کیا ہے۔

ایڈووکیٹ شبیر احمد

ان قوانین میں ریاست اتر پردیش کے آبادی کنٹرول ایکٹ ہے جس کی وجہ سے سماجی و سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔

جموں و کشمیر میں ان متنازع قوانین میں تین طلاق قانون نافذ کیا گیا ہے کیونکہ یہ قانون 2019 میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں پاس کرکے پورے ملک میں لاگو کیا ہے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ مسلم خواتین کو ان کے حقوق دلانے اور طلاق سے بچانے کے لیے یہ قانون متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے لاگو ہونے کے بعد تین طلاق کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے اور جو بھی شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

اگرچہ جموں و کشمیر میں بھی یہ قانون ہے لیکن وکلاء کے مطابق اس طلاق کے متعلق ماضی میں بھی اور آج بھی نا کے برابر معاملات ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے وکیل شبیر احمد نے بتایا کہ اگرچہ تین طلاق دینا قانوناً جرم ہے لیکن طلاق کے معاملے وادی میں نہ کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اپنے وکالت کے کریئر میں عدالتوں میں اس قسم کا کوئی کیس نہیں دیکھا ہے۔

جموں و کشمیر عدالت میں بھی متعلقہ افسران نے نام مخفی رکھنے کے شرط پر بتایا کہ تین طلاق کے معاملات عدالت میں انتہائی کم درج ہوئے ہیں۔

ایڈووکیٹ شبیر احمد کا کہنا ہے کہ 'آبادی کنٹرول قانون، لو جہاد، تبدیلی مذہب قوانین، جموں و کشمیر میں لاگو نہیں کئے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 سے قبل پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قانون براہ راست لاگو نہیں ہوتے تھے کیونکہ یہاں کی قانون ساز اسمبلی کی طرف سے ان قوانین کو دی جانیوالی منظوری کے بعد ہی انکا اطلاق ہوسکتا تھا۔

تاہم تنطیم نو قانون 2019 کے تحت اب جموں و کشمیر میں مرکزی قوانین کا اطلاق براہ راست ہوتا ہے۔ تین طلاق کا اطلاق بھی جموں و کشمیر میں تنطیمِ نو ایکٹ 2019 کے تحت ہوا ہے۔

مرکز میں زیر اقتدار بی جے پی حکومت نے کئی ریاستوں میں کچھ نئے قوانین لاگو کئے ہیں۔ کئی قوانین کے بارے میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے تحفظ کا اظہار کیا ہے۔

ایڈووکیٹ شبیر احمد

ان قوانین میں ریاست اتر پردیش کے آبادی کنٹرول ایکٹ ہے جس کی وجہ سے سماجی و سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔

جموں و کشمیر میں ان متنازع قوانین میں تین طلاق قانون نافذ کیا گیا ہے کیونکہ یہ قانون 2019 میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں پاس کرکے پورے ملک میں لاگو کیا ہے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ مسلم خواتین کو ان کے حقوق دلانے اور طلاق سے بچانے کے لیے یہ قانون متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے لاگو ہونے کے بعد تین طلاق کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے اور جو بھی شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا۔

اگرچہ جموں و کشمیر میں بھی یہ قانون ہے لیکن وکلاء کے مطابق اس طلاق کے متعلق ماضی میں بھی اور آج بھی نا کے برابر معاملات ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے وکیل شبیر احمد نے بتایا کہ اگرچہ تین طلاق دینا قانوناً جرم ہے لیکن طلاق کے معاملے وادی میں نہ کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'اپنے وکالت کے کریئر میں عدالتوں میں اس قسم کا کوئی کیس نہیں دیکھا ہے۔

جموں و کشمیر عدالت میں بھی متعلقہ افسران نے نام مخفی رکھنے کے شرط پر بتایا کہ تین طلاق کے معاملات عدالت میں انتہائی کم درج ہوئے ہیں۔

ایڈووکیٹ شبیر احمد کا کہنا ہے کہ 'آبادی کنٹرول قانون، لو جہاد، تبدیلی مذہب قوانین، جموں و کشمیر میں لاگو نہیں کئے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 سے قبل پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قانون براہ راست لاگو نہیں ہوتے تھے کیونکہ یہاں کی قانون ساز اسمبلی کی طرف سے ان قوانین کو دی جانیوالی منظوری کے بعد ہی انکا اطلاق ہوسکتا تھا۔

تاہم تنطیم نو قانون 2019 کے تحت اب جموں و کشمیر میں مرکزی قوانین کا اطلاق براہ راست ہوتا ہے۔ تین طلاق کا اطلاق بھی جموں و کشمیر میں تنطیمِ نو ایکٹ 2019 کے تحت ہوا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.