لاک ڈاوُن کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کے کاروباری اور تجارتی حلقے بُری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں، وہیں بھارت میں بھی اس لاک ڈاوُن کی تباہ کاریوں نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو سالہا سال یاد رکھے جائیں گے۔
وادیٔ کشمیر کے لوگوں کے لئے یہ لاک ڈاون کسی ناگہانی آفت سے کم نہیں ہے، اگر چہ پوری دنیا میں لاک ڈاون کا سلسلہ گذشتہ دو ماہ سے جاری ہے مگر ریاست میں لاک ڈاون سے بھی زیادہ خراب حالات یہاں کے لوگ پچھلے دس مہینوں سے جھیل رہے ہیں۔
یہ کرفیو جیسے حالات وادی میں مکمل طور پر تقریباً 6 ماہ تک جاری رہے، جس کی وجہ سے یہاں کے کاروباری اور تجارتی حلقے سڑک پر آگئے اور ان تجارتی حلقوں کو کروڑوں روپے کے نقصان سے دو چار ہونا پڑا، غرض ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔
پھر جب حالات دھیرے دھیرے پٹری پر لوٹنے لگے۔ ان تجارتی حلقوں کی تمام تر نظریں آنے والے سیزن کی جانب مرکوز تھی، کیونکہ وادی میں سیاحتی شعبہ معشیت کے اعتبار سے ریڑ کی ہڑی کی حیثیت رکھتا ہے، اس سیاحتی شعبے سے یہاں کے بیشتر لوگوں کا روزگار جُڑا ہوا ہے۔
آجکل کے اس خوشگوار موسم بہار میں کوکرناگ کا یہ بوٹنیکل گارڑن نہ صرف یہاں کے مقامی لوگوں کے لئے بلکہ غیر ریاستی اور غیر ملکی سیاحوں کے لئے بھی سیر و تفری کا بہترین مقام مانا جاتا ہے، جہاں لوگوں کی کافی گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔
کوکرناگ کے اس بوٹنیکل گارڈن میں دن بھر ہزاروں سیاحوں کی چہل پہل ہوا کرتی تھی لیکن آج یہ باغات سنسان ہونے کی وجہ سے اپنی ویرانی بیان کر رہے ہیں اور ہزاروں سوالات اُبھر کے سامنے آرہے ہیں کہ آخر کب تک یہ باغات ویران دکھائی دیں گے، کب تک لوگ قید میں رہیں گے اور کب یہ ویرانیاں دور ہونگی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ لاک ڑاون کے چلتے جموں و کشمیر میں ایک بار پھر یہاں کے سیاحتی شعبے کو ایسا جھٹکا لگا ہے جس سے اُبھرنا محال دکھائی دے رہا ہے۔ لوگ ابھی گذشتہ سال کے نقصان کی بھر پائی نہیں کر پائے تھے کہ اچانک کرونا وائرس کے قہر اور لاک ڑاوُن نے یہاں کے تاجروں اور تجارتی حلقوں سے وابسطہ افراد کی قمر توڑ کے رکھ دی ہے اور تمام سرگرمیاں بند پڑی ہوئی ہیں۔
غرض لاک ڑاوُن کی مار نے یہاں کے تاجروں اور کاروباری حلقوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور ابھی دور دور تک اُمید کی کوئی روشنین نظر نہیں آرہی ہے۔