ETV Bharat / state

امسال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک

گزشتہ برس پانچ اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے بعد مسلح تصادم آرائیوں میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن رواں برس سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کاروائیوں میں سرعت دیکھنے کو ملی۔ کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران تصادم آرائیوں میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔

THIS YEAR 91 MILITANTS KILLED IN 37 ENCOUNTERS IN JAMMU AND KASHMIR
امسال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک
author img

By

Published : Jun 12, 2020, 2:28 PM IST

وادی کشمیر میں لوگ کووڈ 19 وبا سے جوجھ رہے ہیں۔ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے لیکن کشمیر میں اس دوران سیکورٹی فورسز اور مسلح عسکریت پسندوں کے مابین تصادم آرائیوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے جس سے لوگوں کی مصایب بھی مزید بڑھ گئے۔ اور کووڈ 19 کے پروٹوکالز پر عمل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

پانچ ماہ میں 91 عسکریت پسند ہلاک

پولیس کے مطابق رواں برس تاحال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک کئے گئے ہیں جن میں حزب المجاہدین کے اعلی کمانڈر ریاض نائیکو سمیت دیگر پانچ کمانڈر شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں 250 کے قریب عسکریت پسندوں کے حمایتی بھی حراست میں لئے ہیں۔

پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ معرکہ آرائیوں میں تیزی کا باعث عسکریت پسندوں کے معاونوں کی گرفتاری ہے جبکہ انٹرنیٹ ڈاٹا اور فوبائل فون کے استعمال پر کڑی نگرانی بھی ان کاروائیوں میں کافی اہم رول ادا کرتےہے۔

گزشتہ برس پانچ اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے بعد مسلح تصادم آرائیوں میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن رواں برس سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کاروائیوں میں سرعت دیکھنے کو ملی۔ کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران تصادم آرائیوں میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔

سیکورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کے بعد مقامی نوجوانوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہونے میں کمی دیکھی گئی تھی لیکن رواں برس میں اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ سے جنوبی کشمیر کے کولگام اور شوپیان اضلاع میں عسکریت پسندوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر ان نوجوانوں سے پُر درد تلقین کی کہ وہ عسکریت پسندی کی راہ کو ترک کرکے واپس گھر لوٹیں۔ لیکن کشمیر میں ایسا کم دیکھا جارہا ہے کہ اہل خانہ کی اپیلوں سے نوجوان واپس گھر لوٹے ہوں۔

امسال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک

اسلحہ کہ کمی

گزشتہ معرکہ آرائیوں میں پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کے پاس اسلحہ کی دیکھی جا رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد یا حدمتارکہ سے اسلحہ لانے کی کوشسوں کو یا تو ناکام بنایا گیا ہے یا سیکیورٹی فوسز کی نگرانی کڑی ہوئی ہے۔

جموں و کشمیر پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ تاحال سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں اہم کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

انکا کہنا تھا: 'پاکستان اور انکی خفیہ ایجنسیز اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جموں و کشمیر میں تشدد کو بڑھاوا دیا جائے جس کے تحت حد متارکہ اور سرحد سے عسکریت پسندوں کو جموں و کشمیر میں بھیجا جائے۔ لیکن ان کوششوں کو روکنے کیلئے ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ سرحد اور حد متارکہ پر دراندازی کو روکا جائے۔ کشمیر میں عسکریت پسندوں پر قابو پایا جائے اور مقامی نوجوانوں کو عسکریت پسندوں میں شامل ہونے سے روکا جاسکے۔ اور تاحال اس میں ہم کامیاب ہورہے ہیں۔'

انکا مزید کہنا تھا کہ 'اسلحہ کی کمی اس بات سے عیاں ہورہی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے والے نوجوانوں کو پستول یا گرینیڈ سونپا دیا جارہا ہے نہ کہ رائفلز۔'

لاک ڈاؤن اور نیا منصوبہ

اگرچہ ان چھ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی کاروائیاں انجام دی ہے تاہم لوگوں کی جانب سے تصادم آرائیوں کے بعد ہونے والے احتجاج اور پھتراؤ کے واقعات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے کووڈ 19 لاک ڈاؤن کی آڑ میں تصادم کے مقامات پر پھتراؤ کے واقعات اور احتجاجوں کو روکنے کے لئے ایک نیا منصوبہ سامنے لایا جس کے تحت کسی بھی مقامی ہلاک شدہ عسکریت پسند کی لاش کو لواحقین کے سپرد کرنے کے بجائے ان کو بارہمولہ یا گاندبل کے دور دراز پہاڑیوں میں دفنایا جاتا ہے۔

اس نئے منصوبے پر گزشتہ ماہ کشمیر پولیس رینج کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے بتایا کہ 'کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایسا فیصلہ لیا جارہا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ وبا کے ختم ہونے کے بعد اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔'

وجے کمار کا کہنا تھا کہ مقامی ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی شناخت کے بعد تدفین ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں کی جارہی ہے جہاں ان کے دو یا پانچ لواحقین شرکت ہوتے ہیں۔

تاہم ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے متعدد بار انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ انکے ہلاک شدہ افراد کی تدفین مقامی قبرستانوں میں کرنے کی ا جازت دی جائے۔

پولیس کے اس نئے منصوبے پر حقوق انسان کے ایک کارکن نے نام مخفی رکھنے کے شرط پر بتایا کہ عسکریت پسندوں کے لاشیوں کی آخری رسومات کے لیے لواحقین کے سپرد نہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئے منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں اور تدفین کے دوران لوگوں کے ہجوم اور احتجاج پر روک تھام لگانا ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 'سنہ 2016 کے بعد کشمیر میں یہ دیکھنا کو آرہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں کافی لوگ جمع ہو جاتے تھے جن میں بیشتر نوجوان ہوتے ہیں جو مشتعل اور جزباتی ہو کر پھتر بازی یا عسکریت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لہذا اس سلسلے کو روکنے کے لئے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا ہے۔'

مکانات کو نقصان

مسلح تصادم آرائیوں کے دوران مقامی لوگ بے گھر بھی ہوتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بیشتر تصادم مقامی لوگوں کے گھروں میں ہی پیش آتے ہیں کیونکہ عسکریت پسند مقامی لوگوں کے گھروں میں چھپتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سیکورٹی فورسز کو جوں ہی کسی بستی میں عسکریت پسندوں کے چھپے ہونے کی خفیہ اطلاع ملتی ہے تو وہ اسکا محاصرہ کرکے تلاشی کاروائی کرتے ہیں۔ جس دوران تصادم شروع ہوتا ہے جس میں اسلحہ کے استعمال سے گھر خاکستر ہو جاتے ہیں اور مقامی لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔

وادی کشمیر میں لوگ کووڈ 19 وبا سے جوجھ رہے ہیں۔ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے لیکن کشمیر میں اس دوران سیکورٹی فورسز اور مسلح عسکریت پسندوں کے مابین تصادم آرائیوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے جس سے لوگوں کی مصایب بھی مزید بڑھ گئے۔ اور کووڈ 19 کے پروٹوکالز پر عمل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

پانچ ماہ میں 91 عسکریت پسند ہلاک

پولیس کے مطابق رواں برس تاحال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک کئے گئے ہیں جن میں حزب المجاہدین کے اعلی کمانڈر ریاض نائیکو سمیت دیگر پانچ کمانڈر شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں 250 کے قریب عسکریت پسندوں کے حمایتی بھی حراست میں لئے ہیں۔

پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ معرکہ آرائیوں میں تیزی کا باعث عسکریت پسندوں کے معاونوں کی گرفتاری ہے جبکہ انٹرنیٹ ڈاٹا اور فوبائل فون کے استعمال پر کڑی نگرانی بھی ان کاروائیوں میں کافی اہم رول ادا کرتےہے۔

گزشتہ برس پانچ اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے بعد مسلح تصادم آرائیوں میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن رواں برس سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کاروائیوں میں سرعت دیکھنے کو ملی۔ کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران تصادم آرائیوں میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔

سیکورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کے بعد مقامی نوجوانوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہونے میں کمی دیکھی گئی تھی لیکن رواں برس میں اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ سے جنوبی کشمیر کے کولگام اور شوپیان اضلاع میں عسکریت پسندوں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ نے سوشل میڈیا پر ان نوجوانوں سے پُر درد تلقین کی کہ وہ عسکریت پسندی کی راہ کو ترک کرکے واپس گھر لوٹیں۔ لیکن کشمیر میں ایسا کم دیکھا جارہا ہے کہ اہل خانہ کی اپیلوں سے نوجوان واپس گھر لوٹے ہوں۔

امسال 37 تصادم آرائیوں میں 91 عسکریت پسند ہلاک

اسلحہ کہ کمی

گزشتہ معرکہ آرائیوں میں پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کے پاس اسلحہ کی دیکھی جا رہی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد یا حدمتارکہ سے اسلحہ لانے کی کوشسوں کو یا تو ناکام بنایا گیا ہے یا سیکیورٹی فوسز کی نگرانی کڑی ہوئی ہے۔

جموں و کشمیر پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ تاحال سیکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں اہم کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

انکا کہنا تھا: 'پاکستان اور انکی خفیہ ایجنسیز اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جموں و کشمیر میں تشدد کو بڑھاوا دیا جائے جس کے تحت حد متارکہ اور سرحد سے عسکریت پسندوں کو جموں و کشمیر میں بھیجا جائے۔ لیکن ان کوششوں کو روکنے کیلئے ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ سرحد اور حد متارکہ پر دراندازی کو روکا جائے۔ کشمیر میں عسکریت پسندوں پر قابو پایا جائے اور مقامی نوجوانوں کو عسکریت پسندوں میں شامل ہونے سے روکا جاسکے۔ اور تاحال اس میں ہم کامیاب ہورہے ہیں۔'

انکا مزید کہنا تھا کہ 'اسلحہ کی کمی اس بات سے عیاں ہورہی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے والے نوجوانوں کو پستول یا گرینیڈ سونپا دیا جارہا ہے نہ کہ رائفلز۔'

لاک ڈاؤن اور نیا منصوبہ

اگرچہ ان چھ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز نے بڑی کاروائیاں انجام دی ہے تاہم لوگوں کی جانب سے تصادم آرائیوں کے بعد ہونے والے احتجاج اور پھتراؤ کے واقعات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے کووڈ 19 لاک ڈاؤن کی آڑ میں تصادم کے مقامات پر پھتراؤ کے واقعات اور احتجاجوں کو روکنے کے لئے ایک نیا منصوبہ سامنے لایا جس کے تحت کسی بھی مقامی ہلاک شدہ عسکریت پسند کی لاش کو لواحقین کے سپرد کرنے کے بجائے ان کو بارہمولہ یا گاندبل کے دور دراز پہاڑیوں میں دفنایا جاتا ہے۔

اس نئے منصوبے پر گزشتہ ماہ کشمیر پولیس رینج کے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے بتایا کہ 'کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے ایسا فیصلہ لیا جارہا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ وبا کے ختم ہونے کے بعد اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔'

وجے کمار کا کہنا تھا کہ مقامی ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کی شناخت کے بعد تدفین ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں کی جارہی ہے جہاں ان کے دو یا پانچ لواحقین شرکت ہوتے ہیں۔

تاہم ہلاک شدہ عسکریت پسندوں کے لواحقین نے متعدد بار انتظامیہ سے گزارش کی ہے کہ انکے ہلاک شدہ افراد کی تدفین مقامی قبرستانوں میں کرنے کی ا جازت دی جائے۔

پولیس کے اس نئے منصوبے پر حقوق انسان کے ایک کارکن نے نام مخفی رکھنے کے شرط پر بتایا کہ عسکریت پسندوں کے لاشیوں کی آخری رسومات کے لیے لواحقین کے سپرد نہ کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئے منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں اور تدفین کے دوران لوگوں کے ہجوم اور احتجاج پر روک تھام لگانا ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 'سنہ 2016 کے بعد کشمیر میں یہ دیکھنا کو آرہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں کافی لوگ جمع ہو جاتے تھے جن میں بیشتر نوجوان ہوتے ہیں جو مشتعل اور جزباتی ہو کر پھتر بازی یا عسکریت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لہذا اس سلسلے کو روکنے کے لئے یہ نیا منصوبہ بنایا گیا ہے۔'

مکانات کو نقصان

مسلح تصادم آرائیوں کے دوران مقامی لوگ بے گھر بھی ہوتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بیشتر تصادم مقامی لوگوں کے گھروں میں ہی پیش آتے ہیں کیونکہ عسکریت پسند مقامی لوگوں کے گھروں میں چھپتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سیکورٹی فورسز کو جوں ہی کسی بستی میں عسکریت پسندوں کے چھپے ہونے کی خفیہ اطلاع ملتی ہے تو وہ اسکا محاصرہ کرکے تلاشی کاروائی کرتے ہیں۔ جس دوران تصادم شروع ہوتا ہے جس میں اسلحہ کے استعمال سے گھر خاکستر ہو جاتے ہیں اور مقامی لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.