سرینگر: حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ مولوی محمد عمر فاروق نے چار سال کی نظربندی کے بعد گذشتہ روز سرینگر کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا۔ اس موقع پر دیا گیا مکمل خطبہ قارئین کی پیشِ خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے عزیز ہم وطنو !
الحمدُ لِلہ ، الحمدُ لِلہ، الحمدُ لِلہ رب العٰلمین
آج یومِ جمعہ کو ہم تقریباً چار سال اور دو مہینوں کے بعد مُلاقات کر رہے ہے۔ جیسا آپ سب اِس تاریخی حقیقت کے عینی شاہد ہے کہ 4 ؍اگست 2019 سے مُجھے بدستور اپنے گھر میرواعظ منزل نگین سرینگر میں بند رکھا گیا اور تب سے آج تک انتظامیہ نے مُجھے گھر سے باہر جانے سے روکا جس کے نتیجہ میں، نہ میں بحیثیتِ میرواعظ اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرسکا جو کہ نہ صرف میرے انفرادی حقوق میں مداخلت ہے بلکہ آپ کو بھی اس منبر و محراب سے قال اللہ و قال رسول للہ صلعم کے حصول سے محروم رکھا گیا جو کہ صریحاً اجتماعی حقوق اور آزادیوں کی پامالی ہے۔
اس کے باوجود کہ تمام طبقہ ہائے فکر کے مطالبہ کے بعد بھی مُجھے رہا نہیں کیا گیا۔ بالآخر جب مجبوراً عدلیہ تک معاملہ پہنچا تو کل بروزِ جمعرات پولیس کے سینیئر اہلکار مجھ سے ملنے آئے اور مطلع کیا کہ انتظامیہ نے آپ کی نظر بندی ختم کرکے آپ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آپ کل جامع مسجد جاسکتے ہیں۔
الحمدُ للہ، اللہ کی مرضی سے آج چار سال سے زائد عرصہ کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ میں جامع مسجد کے اس عظیم، متبرک اور تاریخی عبادت گاہ میں آپ کے درمیان حاضر ہوں۔
میرے عزیزو ! اِس وقت جو جذبات میرے اندر موجود ہیں وہ میں الفاظ میں ادا نہیں کرسکتا مگر مُجھے یقین ہے کہ ہمارا جو تعلق ہے اُس کی بنیاد پر آپ اُن جذبات کو بخوبی جانتے بھی ہیں اور اُن کو سمجھتے بھی ہیں۔ یہاں پر میں اگر آپ کا شُکریہ ادا نہ کروں تو انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا، آپکی دُعاؤں کی تاثیر اور دین سے وابستگی کے جذبے کے نتیجے میں اللہ تعالٰی کی بابرکت ذات نے یہ موقع نصیب فرمایا کہ آپ کی دلی تمناؤں کو عملی صورت ملے اور اس منبر و محراب سے دعوت و تبلیغ دین کا سلسلہ بحال ہو۔
میرے عزیزو!
آپ سے سالوں دور رہنا یہ میرے لئے کتنا دشوار وقت گذرا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، شہید ملت کی شہادت کے بعد یہ میرے لئے مشکل ترین وقت تھا مگر آپ کے عزم، بلند حوصلوں اور دعاؤں نے میرا ساتھ دیا اور جو واقعتاً اس دشوار ترین مدت میں میری قوت ثابت ہوئی۔ آپ کو میں نے ہمیشہ اپنے قریب پایا، آپ حضرات ہمیشہ میرے خیالوں اور دُعاؤں میں ہمیشہ شامل رہے۔
میرے ہم وطنو! مُجھے بخوبی اس بات کا مکمل اِدراک ہے کہ ۵ اگست 2019 کے بعد جو وقت آپ پر گُذرا وہ آسان نہیں تھا۔ دفعات کو ختم کیا گیا، ریاست جموں کشمیر کی انفرادی حیثیت کو نہ صرف ختم کرنے کا اعلان کیا گیا بلکہ اس ریاست کو ریاستی درجے سے بھی محروم کیا گیا اور تقسیم کیا گیا۔ خطہ لداخ کو جموں و کشمیر سے جدا کیا گیا اور عوامی رائے کے برخلاف نئے حکم ناموں کو جموں و کشمیر کے تنظیمِ نو قانون کے تحت یک طرفہ فیصلوں کی آڑ میں یہاں کے لوگوں کو کمزور اور بے اختیار بنایا گیا۔
میرے عزیزو!
یہ بات چنداں دہرانے کی ضرورت نہیں کہ منصبِ میرواعظ دعوت میں یقین رکھتا ہے۔ مکالمے اور دلیل میں یقین رکھتا ہے۔ یہ منصب جو صدیوں سے کار نبوت کا مشن چلا رہا ہے جہاں لوگوں تک حقیقت پہنچانے کا امین ہے وہیں پر ارباب اقتدار حق بات کہنے کا پابند ہے۔ کوئی ثابت کرکے دکھائے کہ یہ منصب کسی بھی دور میں کبھی بھی مکالمے یا مذاکرات سے انکاری رہا ہو۔ اِس منصب نے ہر ایک کو برابر کا درجہ دیا اور مکالمے اور مذاکرات کے ماحول کو پروان چڑھانے کیلئے کڑوے گھونٹ پیئے ، صعوبتیں اور تکالیف برداشت کئے، عظیم قربانیاں پیش کیں اور یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں بلکہ روشن تاریخ ہے۔
مزید پڑھیں: میر واعظ عمر فاروق نے چار برس بعد جمعہ کا خطبہ دیا، منبر پر چڑھتے ہی آبدیدہ ہوگئے
میرے ہم وطنو!گھر میں نظر بند ہونے اور مشکل ترین حالات کے باوجود، 2019 کے بعد جب 2020 کے اوائل میں میڈیا اور نشرواشاعت پر آہستہ آہستہ پابندیوں میں کُچھ نرمی لائی گئی، کُل جماعتی حُریت کانفرنس نے تب سے لیکر آج تک حالات پر اپنے تشویش کا اظہار مختلف مواقع پہ برملا طور پر کیا، مگر حریت کے بیانات شائع کرنے سے ہر ایک خصوصاً مقامی میڈیا کو روکا گیا تھا تاکہ عوام تک ہماری بات نہ پہنچ پائے۔
آج بھی حالات مختلف نہیں ہے، یہ وقت صبر اور تحمل کا ہے کیونکہ ان حالات میں ہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں اور ہمارے لئے کوئی موقع نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ذمہ دارانہ طور ، دانائی کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرے، اللہ کی ذات میں مکمل یقین رکھے جو قادرِ مطلق ہے ۔ ہمیں ایمان کے ساتھ اسلام کی رسی کو مضبوطی کیساتھ تھامے رکھنا ہے اور قرآن ہمیں سکھاتا ہے وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا
قرآن ہمیں یہ بھی بشارت دیتا ہے کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
میں اور ہماری کُل جماعتی حریت کانفرنس کے ساتھی ہمیشہ سمجھتے ہیں کہ جموں کشمیر کا جو حصہ بھارت میں ہے، ایک حصہ جو پاکستان میں ہے اور وہ حصہ جو چین میں ہے ،کو ملا کر اصل جموں کشمیر بنتا ہے جو کہ اگست 1974 میں قائم تھا اور اس رو یعنی جموں و کشمیر کے منقسم ہونے کی رو سے یہ مسئلہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کو حل ہونا چاہئے جو کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی تصدیق بین الاقوامی برادری بھی کرچُکی ہے۔ بہت سارے خاندان اور دوست جو اِس مصنوعی لکیر کے کھینچنے سے تقسیم اور جُدا ہوئے ہیں، ترس رہے ہیں کہ کب ہم ایک دوسرے کو دیکھیں، ملیں، اپنی خوشیاں ایک دوسرے کیساتھ منائے، ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوں۔ یہ مسئلہ کسی کیلئے علاقائی مسئلہ ہوسکتا ہے مگر جموں و کشمیر کے عوام کیلئے سب سے پہلے یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ہمیں علاقائی اور ذاتی مفادات سے اُٹھ کر پہلے انسانی قدروں اور رشتوں کو سمجھنا ہوگا اور مسائل کے حل کے حوالے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
حال ہی میں جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ دور جنگ کا دور نہیں ہے ۔ اِس ضمن میں ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ ہمیشہ ہر اُس طریقہ کار، جو تشدد کے خلاف تھا، کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ عملی طور پر اُس میں شریک بھی ہوئے تاکہ مسائل کا حل مذاکراتی اور مفاہمتی کاوشوں سے نکالا جائے۔ اُن راستوں پر چلنا ہمارے لئے آسان نہیں تھا مگر اِس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ مسائل کا حل پُرامن ذرائع سے ہی ڈھونڈنا ہوگا تاکہ انسانی جانوں کا ضیاں نہ ہو اور اشتراکِ عمل سے مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ اور اُس راستے کو اختیار کرنے سے ہمیں نقصانات بھی اُٹھانے پڑے جو کہ سب کے سامنے ہے۔ افسوس کہ ہمیں علیحدگی پسند اور امن دشمن تک قرار دیا گیا اور نہ معلوم کیا کیا نام دیئے گئے۔ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔
ہم صرف جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفادات اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہے جو کہ ہماری ترجیح ہے۔ یہاں کے عوام نے بے پناہ قربانیاں اس حوالے سے دی ہے۔ ہم عالمی اور علاقائی سماج میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہر سطح پر پُرامن ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ اور کشمیر کی تاریخ اِس کی مثال پیش کرتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ رواداری کے ماحول کو قائم رکھا ہے۔ اسی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ ہم نے اپنے پنڈت بھائیوں کو واپسی کی دعوت دی اور اِس بات پر زور دیا کہ اِسے کسی سیاسی مسئلے کے طور پر پیش نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔
میرے عزیز! درجنوں ہمارے سیاسی رہنما، مرد اور خواتین مختلف مقامات پر سالوں سے پابند سلاسل ہے، ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بچے، بہت سارے صحافی، انسانی حقوق کے کارکنان، وکلاء وغیرہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ جتنا جلد ہو سکے اُن کو رہا کیا جانا چاہئے۔ اُن کے گھر والے اُن کی بگڑتی صحت کی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہے۔
آخر پر میں یہاں خصوصاً اپنے نوجوانوں سے مخاطب ہوں کہ آپ کے جذبات کا ہمیں بے حد احترام ہے۔ پر گُذارش یہ ہے کہ آپ صبر، عزم اور ہمت سے کام لیں اور توکل کی رسی کو تھامے رکھیں حالات اِنشا اللہ ہمارےحق میں ضرور بہتر ہونگے۔ میرے لئے میرا نوجوان میرا اصل قومی سرمایہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسلام کی روشنی میں میرا نوجوان اپنی نشو نما کیلئے ہمیشہ کوشاں رہے اور اپنا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے مضبوط کرے، اُسی میں ہماری بقا کا راز مضمرہے ۔
آخر میں، میں یہاں اُن سب حضرات جن میں علماءِ کرام، ، مذہبی انجمنوں کے ذمہ داراں، سیاسی شخصیات، تاجر برادران، سول سوسائٹی سے وابستہ ارکان اورجموں و کشمیر کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے بااثر حضرات جنہوں نے بہت مواقع پر میری رہائی کا مطالبہ کیا اور دوہرایا ، کا دِل کی گہرائیوں سے شُکریہ ادا کرتا ہوں !
والسلام