سرینگر: ایک دور تھا جب شہر سرینگر اور وادی کے دیہاتوں کی سڑکوں پر ٹانگے یعنی گھوڑا گاڑی چلتی تھی۔ یہ ٹانگے نہ صرف مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے بلکہ سامان کی نقل و حمل میں بھی ان کا استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اب وقت بدل گیا اور دور جدید میں ٹانگوں کی جگہ موٹر گاڑیوں، آٹو رکشا اور دیگر سواریوں نے لے لی ہے۔ ان سب کے باوجود 70 برس سے محمد عبداللہ اب بھی سرینگر کے مضافات میں اپنی چھوٹی سی دکان میں ان ٹانگوں کی مرمت کا کام گزشتہ کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ Horse cart maker in srinagar
محمد عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'میں تب بہت چھوٹا تھا جب میں اس دکان پر بیٹھا اور یہ کام کرنا شروع کیا۔ ایک زمانہ تھا کی میرے پاس وادی کے ہر اضلاع سے خریدار آتے تھے لیکن اب تو بس مخصوص خریدار ہیں، بڑی مُشکِل سے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوتا ہے۔ ایک ٹانگے کی قیمت اُس وقت دس ہزار سے 30 ہزار روپے تک ہوتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا 'میرے گھروالوں کو میرے اس کام سے خوشی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود میں نے یہ کام جاری رکھا ہے کیوں کہ اب میں کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔' Tanga – a horse-drawn two-wheeled carriage
وہیں عبداللہ کی دکان پر ٹانگہ مرمت کروانے آئے غلام محی الدین کا کہنا ہے کہ 'وہ ٹانگے پر گاؤں اور شہر سبزیاں فروخت کرتے ہیں لیکن اس سے آمدنی زیادہ نہیں ہوتی۔ پہلے ہر طرف ٹانگے ہوتے تھے لیکن آج کچھ نہیں ہے۔ ہم اپنے ٹانگے کی مرمت کرنے یہاں آتے ہے۔' عبداللہ نے کہا کہ انتظامیہ نے ٹانگے والوں کو آٹو اور بس یا دیگر ملازمتیں دی لیکن ہم کاریگروں کو کچھ نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹانگے سے وابستہ افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی جانب توجہ دی جائے تاکہ انہیں فاقہ کشی کا شکار نہ ہونا پڑے۔ Tanga in kashmir
یہ بھی پڑھیں : Kashmiri Female Entrepreneur: ملیے کشمیری خاتون انٹرپرینیو توحیدہ اختر سے