ETV Bharat / state

قالین باف بے یارومدگار کیوں؟ - carpet industry

وادی کشمیر کی قدیم دستکاریاں جہاں دن بدن دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ وہیں یہاں کی یہ تاریخی قالین بافی صنعت بھی زوال پذیر ہو گئی ہے۔ ایک زمانے میں یہ صنعت اتنے عروج پر تھی کہ کشمیر کے شہر و دیہات میں اکثر قالین بافی کے بڑے بڑے کارخانے دیکھنےکو ملتے تھے۔

کشمیر میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں
کشمیر میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں
author img

By

Published : Feb 11, 2020, 11:30 PM IST

Updated : Mar 1, 2020, 1:02 AM IST

وہیں کشمیری کاریگروں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے قالین نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی منفرد پہنچان رکھتے تھے۔

کشمیر میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں
تاہم آج کل اس طرح کے قالین لومز کسی خاص جگہ ہی نظر آتے ہیں اور اس صنعت سے جڑے افراد یعنی قالین باف پوری وادی میں آٹے میں نمک کے برابر موجود ہیں، جو یا تو کسی مجبوری کے سبب اس قالین بافی کے کام کو تھامے ہوئے ہیں یا وہ عمر کے اُس پڑاو کو پہنچے چکے ہیں کہ وہ اپنی دو وقت کی روزی روٹی جٹانے کے لیے کوئی دوسرا کام اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔

لگ بھگ دو دہائی قبل کشمیر میں قالین بافی کو صنعت کا درجہ تھا اور یہ صنعت یہاں کی اقتصادیات میں ریڈھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی تھی

وہیں ایک وقت میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین قالین سازی پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کرتے تھے. لیکن افسوس آج کی تاریخ میں ان ہنر مندوں کا اپنا گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے .ڈیڑھ سے دو سو روپے دن میں کمانے والے یہ بچے کچےدستکار قرضوں کے بوجھ تلے اب دب چکے ہیں . یہ نہ تو اپنی کمائی سےہل و عیال کےلیے روزمرہ کے اخراجات پورے کر پارہے ہیں اور نہ ہی قرضے کی قسطیں ہی

وادی میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں اور اس کے روبہ زوال ہونے کے کئ وجوہات کار فرما ہیں لیکن حکومتی سطح پر عدم توجہی جبکہ درمیانہ داروں کی خود غرضی اور ہاتھ کے نام پر میشین پر تیار کردہ قالین فروخت کرنے والوں کی دھوکہ دہی اس کی اہم وجہ مانی جاتی ہے۔

اور ان سب وجوہات کا خمیازہ براہراست ان قالن بافوں کو بھگتنا پڑرہا ہے جو آجکل مالی تنگی کی وجہ سے اپنے کنبے کو معمول چائے کے لیے روزانہ کی 20 سے 30 روپے کی روٹی کا بھی خرچہ برداشت نہیں سکتے ہیں.

دستکاری شعبہ سے جڑے افراد کا ماننا یے کہ اس وقت بازار میں مشین سے بنائے گئےقالین ہاتھ سے بننے گے قالینوں کے نام پر فروخت کیے جارہے ہیں جس کے چلتے اصل قالین کی مانگ مارکیٹ میں بہت کم ہوگئی ہے جس کا اثر ان دستکاروں کی روزی روٹی پر پر پڑ رہا ہے۔

بہرحال قالین بافی کی صنعت کو مکمل طور نیست نابود ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں وابستہ افراد کو بھی انفرادی اور اجتماعی طور اس کےحیائےنو کے لیے کام کرنا ہوگا

وہیں کشمیری کاریگروں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے قالین نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی منفرد پہنچان رکھتے تھے۔

کشمیر میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں
تاہم آج کل اس طرح کے قالین لومز کسی خاص جگہ ہی نظر آتے ہیں اور اس صنعت سے جڑے افراد یعنی قالین باف پوری وادی میں آٹے میں نمک کے برابر موجود ہیں، جو یا تو کسی مجبوری کے سبب اس قالین بافی کے کام کو تھامے ہوئے ہیں یا وہ عمر کے اُس پڑاو کو پہنچے چکے ہیں کہ وہ اپنی دو وقت کی روزی روٹی جٹانے کے لیے کوئی دوسرا کام اختیار نہیں کر سکتے ہیں۔

لگ بھگ دو دہائی قبل کشمیر میں قالین بافی کو صنعت کا درجہ تھا اور یہ صنعت یہاں کی اقتصادیات میں ریڈھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی تھی

وہیں ایک وقت میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین قالین سازی پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کرتے تھے. لیکن افسوس آج کی تاریخ میں ان ہنر مندوں کا اپنا گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے .ڈیڑھ سے دو سو روپے دن میں کمانے والے یہ بچے کچےدستکار قرضوں کے بوجھ تلے اب دب چکے ہیں . یہ نہ تو اپنی کمائی سےہل و عیال کےلیے روزمرہ کے اخراجات پورے کر پارہے ہیں اور نہ ہی قرضے کی قسطیں ہی

وادی میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں اور اس کے روبہ زوال ہونے کے کئ وجوہات کار فرما ہیں لیکن حکومتی سطح پر عدم توجہی جبکہ درمیانہ داروں کی خود غرضی اور ہاتھ کے نام پر میشین پر تیار کردہ قالین فروخت کرنے والوں کی دھوکہ دہی اس کی اہم وجہ مانی جاتی ہے۔

اور ان سب وجوہات کا خمیازہ براہراست ان قالن بافوں کو بھگتنا پڑرہا ہے جو آجکل مالی تنگی کی وجہ سے اپنے کنبے کو معمول چائے کے لیے روزانہ کی 20 سے 30 روپے کی روٹی کا بھی خرچہ برداشت نہیں سکتے ہیں.

دستکاری شعبہ سے جڑے افراد کا ماننا یے کہ اس وقت بازار میں مشین سے بنائے گئےقالین ہاتھ سے بننے گے قالینوں کے نام پر فروخت کیے جارہے ہیں جس کے چلتے اصل قالین کی مانگ مارکیٹ میں بہت کم ہوگئی ہے جس کا اثر ان دستکاروں کی روزی روٹی پر پر پڑ رہا ہے۔

بہرحال قالین بافی کی صنعت کو مکمل طور نیست نابود ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں وابستہ افراد کو بھی انفرادی اور اجتماعی طور اس کےحیائےنو کے لیے کام کرنا ہوگا

Last Updated : Mar 1, 2020, 1:02 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.