وہیں کشمیری کاریگروں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے قالین نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی منفرد پہنچان رکھتے تھے۔
لگ بھگ دو دہائی قبل کشمیر میں قالین بافی کو صنعت کا درجہ تھا اور یہ صنعت یہاں کی اقتصادیات میں ریڈھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی تھی
وہیں ایک وقت میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین قالین سازی پر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی کرتے تھے. لیکن افسوس آج کی تاریخ میں ان ہنر مندوں کا اپنا گھر کا گزارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے .ڈیڑھ سے دو سو روپے دن میں کمانے والے یہ بچے کچےدستکار قرضوں کے بوجھ تلے اب دب چکے ہیں . یہ نہ تو اپنی کمائی سےہل و عیال کےلیے روزمرہ کے اخراجات پورے کر پارہے ہیں اور نہ ہی قرضے کی قسطیں ہی
وادی میں قالین صنعت آخری سانسیں لے رہی ہیں اور اس کے روبہ زوال ہونے کے کئ وجوہات کار فرما ہیں لیکن حکومتی سطح پر عدم توجہی جبکہ درمیانہ داروں کی خود غرضی اور ہاتھ کے نام پر میشین پر تیار کردہ قالین فروخت کرنے والوں کی دھوکہ دہی اس کی اہم وجہ مانی جاتی ہے۔
اور ان سب وجوہات کا خمیازہ براہراست ان قالن بافوں کو بھگتنا پڑرہا ہے جو آجکل مالی تنگی کی وجہ سے اپنے کنبے کو معمول چائے کے لیے روزانہ کی 20 سے 30 روپے کی روٹی کا بھی خرچہ برداشت نہیں سکتے ہیں.
دستکاری شعبہ سے جڑے افراد کا ماننا یے کہ اس وقت بازار میں مشین سے بنائے گئےقالین ہاتھ سے بننے گے قالینوں کے نام پر فروخت کیے جارہے ہیں جس کے چلتے اصل قالین کی مانگ مارکیٹ میں بہت کم ہوگئی ہے جس کا اثر ان دستکاروں کی روزی روٹی پر پر پڑ رہا ہے۔
بہرحال قالین بافی کی صنعت کو مکمل طور نیست نابود ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے وہیں وابستہ افراد کو بھی انفرادی اور اجتماعی طور اس کےحیائےنو کے لیے کام کرنا ہوگا