جیل میں نظر بند بیسیوں قیدیوں کے رشتہ دار آج علی الصبح پائین شہر کے کاٹھی دروازہ علاقے میں پہنچ گئے جہاں سینٹرل جیل واقع ہے۔ وہ اپنے نظر بند رشتہ داروں کی خیر و عافیت کے بارے میں پتہ لگارہے ہیں لیکن حکام انہیں کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔
حکام نے سرینگر کے پرانے شہر میں بندشیں عائد کی ہیں اور سرینگر سمیت وادی کے دیگر اضلاع میں انٹرنیٹ اسپیڈ کم کردی گئی ہے تاکہ لوگ جیل میں ہوئی آگ زنی اور ان سے منسلک ویڈیوز اور خبریں پھیلا نہ سکیں۔
پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جمعرات کی شام جیل حکام اور بعض قیدیوں کے درمیان، ایک بیرک میں ہورہے تعمیری کام پر جھگڑا ہوا جسکے بعد قیدیوں نے مشتعل ہوکر بیرک میں آگ لگائی۔دلباغ سنگھ محکمہ جیل خانہ جات کے بھی سربراہ ہیں۔
سری نگر کے ضلع کمشنر شاہد اقبال چودھری نے بتایا کہ جیل کے اندر صورتحال قابو میں لائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آگ بجھائی جا چکی ہے۔ بجلی کی سپلائی بحال ہوئی ہے اور تمام قیدی اپنی بیرکوں میں واپس بھیجے جا چکے ہیں۔
چاڈورہ سے آئے ایک شخص غلام محمد، جنکا بیٹا جیل میں گزشتہ آٹھ ماہ سے قید ہے، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ صبح سات بجے سینٹرل جیل علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں انکے فرزند کی خیر و عافیت کے بارے میں تشویش ہے لیکن حکام انہیں نہیں بتارہے ہیں کہ قیدی اسوقت کس حال میں ہیں۔
جیل احاطے کے باہر قیدیوں کے رشتہ داروں کے ساتھ مقامی لوگ بھی جمع ہوگئے ہیں۔
فائر اینڈ ایمرجنسی سروسز محکمے کے ایک افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آگ گیس سیلنڈرز کے پھٹنے کے نتیجے میں زیادہ بھڑک اٹھی تھی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ رات بھر جیل احاطے سے دھواں اٹھ رہا تھا اور بیچ بیچ میں دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔
سرینگر سینٹرل جیل کو کشمیر کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔13 جولائی 1931 کے روز اسی جگہ پر اسوقت کے مہاراجہ کی پولیس نے مقامی مسلمانوں نے ایک جم غفیر پر گولیاں چلاکر 22 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ یہ لوگ ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے آئے تھے جس نے جامع مسجد میں مقامی حکمرانوں کے خلاف تقریر کی تھی جسکے بعد اسے حراست میں لیا گیا تھا۔
13 جولائی کو ابھی تک سرکاری طور جموں و کشمیر میں یوم شہدا کے طور منایا جاتا ہے۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر کے ہزاروں قیدیوں کو سینٹرل جیل میں مقید رکھاگیا۔یہ قیدی عام طور علیحدگی پسند لیڈر یا سابق ملیٹنٹ ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس فروری میں ایک پاکستانی ملیٹنٹ نوید جاٹ اسوقت فرار ہوا تھا جب اسے علاج کیلئے سرینگر کے صدر اسپتال لایا جاریا تھا۔ فرار سے قبل اس نے حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔ نوید جاٹ، کئی ماہ بعد ایک تصادم میں مارا گیا۔