دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ وہ نومبر 2021 میں سرینگر کے حیدر پورہ انکاؤنٹر میں مارے جانے والے محمد لطیف ماگرے کے بیٹے عامر ماگرے کی مذہبی طریقوں کے مطابق آخری رسومات ادا کرنے کی درخواست پر ایک ہفتے کے اندر فیصلہ کرے۔یہ ہدایت جسٹس سوریہ کانت اور بی پاردی والا کی تعطیلات والی بنچ نے ماگرے کی طرف سے دائر اسپیشل لیو پٹیشن پر بحث کے بعد جاری کی،جس میں 3 جون 2022 کو ہائی کورٹ کے ذریعے ان کے بیٹے کی لاش کو نکالنے پر روک لگانے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ SC On Exhumation of Aamir Magray's Body
سپریم کورٹ کے سامنے، سینیئر ایڈوکیٹ آنند گروور نے عرضی گزار کی طرف سے پیش ہوکر عرض کیا کہ وہ قبر کشائی کے لیے زور نہیں دے رہے تھے بلکہ اپنے بیٹے کی مذہبی عقائد کے مطابق آخری رسومات ادا کرنے اور معاوضے کی ادائیگی کے لیے ریلیف کی پیروی کررہے تھے۔ گروور نے ماگرے کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ میت کی آخری رسومات ادا کرنے کا حق اس کے لواحقین کا ہے نہ کہ ریاست کو اس کا حق ہے۔ انہوں نے بنچ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ 5 لاکھ روپے کے معاوضے کے حوالے سے ہدایت پر بھی غور کرے جسے سنگل جج نے منظور کیا تھا۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ معاملہ 28 جون 2022 کو ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے ذریعہ سننے کے لیے درج کیا گیا تھا۔ بنچ کے صدارتی جج جسٹس سوریہ کانت نے کہا، "کل معاملہ ہائی کورٹ کے سامنے ہے، ہم ہائی کورٹ کو ہدایت دیں گے۔ ہم ہائی کورٹ سے درخواست کریں گے کہ آپ کی متبادل ریلیف کی درخواست پر کل ہی فیصلہ دے یا ایک ہفتے کے اندر۔ ہمیں سسٹم پر اتنا اعتماد تو ہے۔
بنچ نے حکم میں کہا کہ "درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ درخواست گزار لاش کو نکالنے کے لیے اپنی اصل عرضداشت پر قائم رہنا نہیں چاہتے تاہم وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق قبرستان میں آخری رسومات ادا کرنا چاہتا ہے جہاں اس کا بیٹا ہے۔ وہ معاوضے کے متبادل ریلیف کے لیے بھی درخواست گزار ہے۔ چونکہ ایل پی اے کل ڈویژن بنچ کے سامنے سماعت کے لیے درج ہے، اس لیے ہم اس ایس ایل پی کے میرٹ میں جائے بغیر ہائی کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ متبادل ریلیف پر کل یا ایک ہفتے کے اندر غور کریں۔عرضی اے او آر نوپور کمار کے ذریعے دائر کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس وسیم صادق نرگال کی ڈویژن بنچ نے جسٹس سنجیو کمار کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا جس میں انہوں نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ متنازعہ مقابلے میں مارے گئے 4 افراد میں سے ایک عامر لطیف ماگرے کی لاش گمنام قبرستان سے نکال کر لواحقین کے حوالے کریں تاکہ وہ اس کی آخری رسومات ادا کریں۔ ساتھ ہی ہلاک شدہ عامر کے والد کو اس صورت میں 5 لاکھ ادا کرنے کی بھی ہدایت کی اگر لاش انتہائی بوسیدہ حالت میں ہو یا ڈیلیوری کی حالت میں نہ ہو۔
عامر ماگرے سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں ایک فرضی تصادم میں ہلاک کیا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس تصادم میں ایک پاکستانی عسکریت پسند ہلاک کیا گیا جبکہ تین مقامی شہری بھی ہلاک ہوئے۔ ابتدائی طور پولیس نے کہا تھا کہ یہ شہری عسکریت پسندوں کے اعانت کار تھے لیکن بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد سرینگر کے دو شہریوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ عسکریت پسند نہیں تھے چنانچہ ان کی لاشیں کپواڑہ کے گمنام مزار سے نکال کر لواحقین کے حوالے کی گئیں جن کو انتہائی سخت سرکاری احکامات کے تحت ان کی آخری رسومات انجام دی گئی۔
مزید پڑھیں:
تاہم عامر ماگرے کے بارے میں پولیس کا استدلال رہا کہ وہ مارے گئے عسکریت پسند کا ساتھی تھا حالانکہ اس کے اہل خانہ نے اس کی تردید کی۔ سنگل بینچ نے عامر کی قبر کشائی کا فیصلہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ عامر ماگرے کی قبر کشائی اس لیے نہیں کی گئی کیونکہ ا سکے رشتہ دار انتطامیہ پر دباؤ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
عامر کا والد ماضی میں ایک لشکر طیبہ عسکریت پسند کو کلہاڑی سے ہلاک کرنے کے عوض سابق ریاست کا ایک ایوارڈ بھی حاصل کرچکا ہے جبکہ حکام نے اسے سیکیورٹی بھی فراہم کی تھی تاکہ عسکریت پسند اسے بدلے میں ہلاک نہ کردیں۔ لطیف ماگرے تاہم اس بات پر دلبرداشتہ ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اس کے بے گناہ بیٹے کو فرضی تصادم میں نہ صرف ہلاک کیا بلکہ اس کی لاش بھی لواحقین کو واپس نہیں کی۔ عامر ماگرے سرینگر کی اس بلڈنگ میں کام کررہا تھا جہاں فرضی تصادم عمل میں لایا گیا تھا۔