گزشتہ برس دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد عائد پابندیوں کی وجہ سے جہاں جموں و کشمیر کے لوگ ذہنی دباؤ میں مبتلاء ہوتے جا رہے ہیں وہیں وادی میں تعینات سکیورٹی اہلکار بھی موجودہ صورتحال کی وجہ سے خودکشی اور برادر کشی کے شکار ہو رہے ہیں۔
جموں وکشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق "گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی میں تعینات نیم فوجی دستوں کے 20 اہلکاروں نے خودکشی کی ہے جبکہ چھ اہلکار برادر کشی کا شکار ہوئے ہیں۔ وہیں بھارتی فوج میں بھی خودکشی کا ایک معاملہ سامنے آیا ہے۔ ابھی تک کل ملا کر 29 اہلکار خودکشی یا پھر برادر کشی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔"
سرینگر میں تعینات سی آر پی ایف کے ترجمان پنکج سنگھ کے مطابق "ہر معاملے کی ایک الگ وجہ ہوتی ہے۔ ان معاملوں میں پولیس تحقیقات کر رہی ہے۔ چھٹی نہ ملنا اس کی وجہ نہیں ہے۔ جہاں تک میری نجی رائے ہے کہ وادی کے ماحول میں کام کرنا آسان نہیں۔ نیم فوجی دستے عسکریت پسند مخالف سرگرمیوں کے علاوہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ ذمہ داری بہت ہے اور ڈیوٹی کا وقفہ بھی کافی لمبا۔"
سکیورٹی فورسز میں کیوں بڑھ رہے ہیں خود کشی اور برادر کشی کے معاملے؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ "اب دیکھئے ایک اہلکار صبح سات بجے تعینات ہوتا ہے اور شام سات بجے تک وہیں کھڑا رہتا ہے۔ وہ بھی انسان ہے۔ ذہنی دباؤ ہونا تو لازمی ہے۔ سی آر پی ایف کے انتظامیہ اپنے اہلکاروں کے لیے کئی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ رعایت بھی دی جا رہی ہیں۔ چھٹی جب چاہیے ہوتی ہے تب مل جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس بارے میں اعلی عہدے دار مباحثہ کر رہے ہیں۔"جہاں افسران اپنے اہلکاروں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کی وجہ وقت پر چھٹی نہ ملنے کے بجائے وادی کی صورتحال کو ٹھہرا رہے ہیں وہیں بھارتی فوج کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جوانوں کی ذہنی تندرستی کے لیے کافی عرصے سے مہم چلا رہے ہیں۔ایک سینئر آرمی آفیسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "اب دیکھئے کی نیم فوجی دستوں میں خودکشی کے معاملے زیادہ ہیں۔ فوج میں ایک یا دو ہی رواں برس سامنے آئے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج کا نظام اور کام کرنے کا طریقہ کافی مختلف ہے۔ ہم نے اپنے ہیڈکوارٹر میں تفریح کے لیے مقام قائم کئے ہیں۔ اس مقام پر ہر پندرہ دن کے بعد حساس علاقوں میں تعینات فوجیوں کو لایا جاتا ہے۔ یہاں پندرہ دن انہیں ٹھہرایا جاتا ہے اور ان کے ذہن کو تندرست رکھنے کے لیے سیشنز لئے جاتے ہیں۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک فوجی ہر حالت میں کام کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے یہ پتہ ہوتا ہے کی پیشہ ورانہ دباؤ اور گھریلو دباؤ سے کیسے نمٹا جائے۔ نیم فوجی دستوں کے بارے میں زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ بھی کافی اقدامات اب اٹھا رہے ہیں اور ماہرین کی مدد بھی لے رہے ہیں۔"ای ٹی وی بھارت نے سرینگر شہر میں تعینات کچھ سی آر پی ایف اہلکاروں سے بھی بات کی۔ ان اہلکاروں میں سے بیشتر افراد کا ماننا تھا کہ " گھر سے دور رہتے ہیں۔ یہاں کے حالات ٹھیک نہیں۔ اور جب گھر پر کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو فکر مند ہوجاتے ہیں۔ جس وجہ سے اکثر اپنے سینئر یا ساتھیوں سے بحث ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ واقعات پیش آتے ہیں۔"ان کا کہنا تھا کہ "دفعہ 370 اور 35 اے منسوخی کے بعد جہاں وادی کی زمینی صورتحال کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ ہمارے گھر والے کس حال میں تھے یہ پریشانی ہر وقت ذہن میں تھی۔ فون بھی نہیں چل رہے تھے۔ اور ان دنوں تو چھٹیاں بھی نہیں مل رہی تھی۔ اب ایسے میں ذہنی دباؤ تو پڑے گا ہی اور پھر کسی نہ کسی پہ تو نکلے گا۔ یا تو پھر خود پر ہی نکلے گا۔ ہمارے اعلیٰ آفیسر اکثر مدد کرتے ہیں۔"ان کا ماننا تھا کہ "فوج کے جوانوں کو کافی بہتر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اور ان کا کام بھی ہم سے کافی آسان ہے۔ ہم سے تو بس کام لیا جاتا ہے ہمارے بارے میں سوچا نہیں جاتا۔ اور جب بھی کوئی ہمارے بارے میں بات کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔"یہ بھی پڑھیں:
بھارت کے ساتھ ہمیشہ مسائل پیدا ہوں گے: چینقابل ذکر ہے کی سن 2018 میں بارڈر سکیورٹی فورس کے جوان تیج بہادر یادو، جو جموں وکشمیر کے سرحدی علاقے میں تعینات تھا، نے فیس بک پر دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ملنے والا کھانا غیر معیاری ہے۔ جس کے بعد اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ یادوں جیسے کئی اور سپاہی ہیں جنہوں نے جب بھی سوال کئے ہیں انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی کا ماننا ہے کہ "نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کے ساتھ ہمیشہ سختی کی جاتی ہے۔ یہاں تعینات اہلکار اکثر دیگر ریاستوں کہ ہوتے ہیں۔ اپنے دوستوں سے رشتے داروں سے دور ہوتے ہیں۔ گھر کے مسائل سیدھے ان کے ذہن پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ نیم فوجی دستوں کو چاہیے کہ وہ سینئر اور جونیئر رشتے میں بہتری لائے۔ کمیونیکیشن گیپ دور کریں۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد یہاں کا مواصلاتی نظام بند تھا۔ ہم تو یہاں کے رہنے والے ہیں ہمارے گھر والے فکر مند ہو جاتے تھے۔ لیکن جو دیگر ریاستوں سے یہاں آئے ہیں ان کے گھر والے کتنے پریشان ہوں گے اور وہ کتنے پریشان ہوتے ہوں گے۔ اس سے دباؤ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔"دباؤ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میں ڈاکٹر جنید کا کہنا تھا کہ "آپس میں میل جول رکھنے سے، ہنسی مذاق کیجیے، موسیقی اور دیگر چیزوں میں ملوث رہیں۔ کبھی بھی خالی نہ بیٹھے۔ کسی الجھن میں ہوں تو دوسروں سے بانٹیں۔ گھریلو مسائل کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ اور جب بھی ضرورت ہو ماہرین سے رابطہ کریں۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "ایک شخص خودکشی کیسے کرتا ہے؟ اس کے دو پہلوں ہوتے ہیں۔ پہلا اچانک سے۔ اس معاملے میں متاثر کو بچانا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جو دوسرا ہے وہ زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ وہ شخص پورا ارادہ اور تمام تیاری کر کے خودکشی کرتا ہے۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کی ماہرین کی مدد وقت رہتے لینی چاہیے اور کچھ بھی دل میں دبا کے نہیں رکھنا چاہیے۔"