شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں بدھ کو سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) پر ہوئے حملے کے دوران ہلاک ہونے والے عام شہری کے تین سالہ پوتے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنے نانا کی ہلاکت کے لیے سیکورٹی فورسز کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہوا جبکہ دیگر تین زخمی ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یہ کمسن بچہ اپنے ہلاک شدہ نانا کے ساتھ سوپور میں جائے واردات پر موجود تھا۔ ان کی کئی دلدوز تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کا ایک اہلکار بھی ہلاک ہوا جبکہ دیگر تین زخمی ہوئے تھے۔
اس کمسن بچے کی دو ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی گئی ہیں جس میں یہ بچہ کہہ رہا ہے کہ پولیس نے ان کے نانا پر گولیاں چلائیں۔
ایک اور ویڈیو میں اس بچے کی کسی رشتہ دار خاتون کے ساتھ باتیں سنی جا سکتی ہیں جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ پولیس والے نے ان کے نانا پر گولی چلائی۔
خاتون اس بچے سے پوچھ رہی ہے کہ 'بڑے پاپا تھے نا صبح آپ کے ساتھ، ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کا جواب تھا: 'پولیس والے نے گولی ماری، وہ مر گیا۔ پولیس والے نے ٹھک ٹھک کیا۔'
ایک اور ویڈیو میں یہ کمسن بچہ ایک شخص کے ساتھ، جو ویڈیو میں نہیں دِکھ رہے ہیں، کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کے نانا پر پولیس نے گولیاں چلائیں۔
اس معمر شہری کے لواحقین نے بھی سی آر پی ایف پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ 'انہوں نے حملے کے عینی شاہد سے معلوم کیا ہے کہ سی آر پی ایف نے حملے کے دوران بشیر احمد خان کو گاڑی سے اتار کر اسے ہلاک کر دیا۔'
تاہم پولیس اور سی آر پی ایف نے مہلوک بشیر احمد خان کے رشتہ داروں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ شہری عسکریت پسندوں کی گولیوں سے ہلاک ہو گیا ہے۔'
کشمیر پولیس اور سی آر پی ایف نے متاثرہ خاندن کے بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ شہری اور ایک سی آر پی ایف اہلکار کی موت ایک مسجد کے اندر چھپے عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہوئی۔
کیا قانونی طور اس کمسن بچے کا بیان بطور گواہی قبول کیا جا سکتا ہے؟
جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں وکیل شفقت نذیر کا کہنا ہے کہ قانونی طور بچے کے بیان میں کوئی کمزوری نہیں ہے اور اس کے بیان کو کورٹ میں بطور گواہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے شفق نذیر نے کہا 'بچہ جائے واردات پر موجود تھا لہذا اس کے بیان پر قانونی طور کوئی شک نہیں کیا جانا چاہئے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'پولیس کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے بجائے اس بچے کے بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پورے معاملے کی تحقیقات کریں۔'