ETV Bharat / state

سرینگر: ٹرانسپورٹر سڑک کے کنارے کپڑے فروخت کرنے پر مجبور

بے روزگاری کے عالم میں اتنے مجبور ہوگئے ہیں کہ اعجاز احمد ڈار نے اپنی اہلیہ سے کچھ پیسے لے کر سڑک کے کنارے کپڑے بیچنے کا کام شروع کیا ہے۔

ٹرانسپورٹر سڑک کے کنارے کپڑے فروخت کرنے پر مجبور
ٹرانسپورٹر سڑک کے کنارے کپڑے فروخت کرنے پر مجبور
author img

By

Published : Jun 21, 2021, 9:54 PM IST

جموں و کشمیر میں کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام کی معاشی حالت پر کافی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یوں تو لاک ڈاؤن کے باعث ہر شعبہ متاثر ہوا ہے، تاہم سب سے زیادہ نقصان ٹرانسپورٹرز کو اٹھانا پڑا ہے۔

ٹرانسپورٹر سڑک کے کنارے کپڑے فروخت کرنے پر مجبور

سرینگر شہر کے ایچ ایم ٹی علاقے کے رہنے والے اعجاز احمد ڈار نے آج سے چند برس قبل ایک سیکنڈ ہینڈ کمرشل گاڑی (Toyota Qualis) خریدی تھی جو سرینگر اور بارہمولہ کے راستوں پر مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کا کام کرتی تھی۔

اعجاز ڈار کا کہنا ہے کہ وہ اُن دنوں کافی آرام سے اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر لیتے تھے تاہم لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد ان کی معاشی حالت ابتر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے اپنی پُشتینی زمین بیچ کر گاڑی خریدی تھی اور آج وہ گاڑی میرے گھر پر کھڑی ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے کوئی کمائی نہیں ہوئی اور اب میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں گاڑی کا سالانہ ٹیکس ادا کر کے کاغذات مکمل کروں۔ میری گاڑی سنہ 2004 کی ہے اور اگر بغیر دستاویز کے گاڑی چلائی تو ضبط ہو جائے گی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'گاڑی کو کباڑی والوں کو بیچنے کی بات کروں گا تو اہل خانہ کی جانب سے بہت کچھ سننا پڑے گا۔ اس لیے گاڑی ابھی بھی میرے گھر پر کھڑی ہے'۔

اعجاز احمد ڈار کی تین بیٹیاں ہیں جن میں سے دو اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ بے روزگاری کے عالم میں وہ اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اپنی اہلیہ سے کچھ پیسے لے کر سڑک کے کنارے پر کپڑے بیچنے کا کام شروع کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں کبھی ان کی گاڑی سواریاں اٹھایا کرتی تھی، آج وہیں پر وہ کپڑے بیچتے ہیں۔

اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ 'میری اہلیہ کو اپنے کانوں کی بالیاں بیچنی پڑیں۔ اس رقم سے یہ کپڑے خریدے اور ایک گاڑی کرائے پر لی جس کا یومیہ کرایہ چار سو روپے ہے۔ بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔ دو سو، چار سو روپے ہی کما پاتا ہوں اور کبھی خالی ہاتھ ہی گھر لوٹ جاتا ہوں'۔

یہ بھی پڑھیے: پہلگام میں موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہماری خبر لینے نہ حکومتی نمائندے آئے اور نہ ہی کوئی غیر سرکاری تنظیم۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کی اسکول کی فیس اور دیگر اخراجات مجھ پر ہی ہیں۔ میں ہر اس حد تک جاؤں گا کہ انہیں بہتر زندگی دے پاؤں تاکہ انہیں وہ سب نہ دیکھنا پڑے جو ان کے والد نے دیکھا۔ میری حالت تو ایسی ہے کہ اب آنکھوں سے آنسو بھی نہیں آتے'۔

جموں و کشمیر میں کووڈ مثبت معاملوں میں کمی کے بعد لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں نرمی برتی گئی ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جو لوگ لاک ڈاؤن سے متاثر ہوئے ہیں ان کے نقصان کی بھرپائی کب اور کیسے ہو گی۔

جموں و کشمیر میں کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام کی معاشی حالت پر کافی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یوں تو لاک ڈاؤن کے باعث ہر شعبہ متاثر ہوا ہے، تاہم سب سے زیادہ نقصان ٹرانسپورٹرز کو اٹھانا پڑا ہے۔

ٹرانسپورٹر سڑک کے کنارے کپڑے فروخت کرنے پر مجبور

سرینگر شہر کے ایچ ایم ٹی علاقے کے رہنے والے اعجاز احمد ڈار نے آج سے چند برس قبل ایک سیکنڈ ہینڈ کمرشل گاڑی (Toyota Qualis) خریدی تھی جو سرینگر اور بارہمولہ کے راستوں پر مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کا کام کرتی تھی۔

اعجاز ڈار کا کہنا ہے کہ وہ اُن دنوں کافی آرام سے اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر لیتے تھے تاہم لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد ان کی معاشی حالت ابتر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے اپنی پُشتینی زمین بیچ کر گاڑی خریدی تھی اور آج وہ گاڑی میرے گھر پر کھڑی ہے۔ گذشتہ دو برسوں سے کوئی کمائی نہیں ہوئی اور اب میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں گاڑی کا سالانہ ٹیکس ادا کر کے کاغذات مکمل کروں۔ میری گاڑی سنہ 2004 کی ہے اور اگر بغیر دستاویز کے گاڑی چلائی تو ضبط ہو جائے گی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'گاڑی کو کباڑی والوں کو بیچنے کی بات کروں گا تو اہل خانہ کی جانب سے بہت کچھ سننا پڑے گا۔ اس لیے گاڑی ابھی بھی میرے گھر پر کھڑی ہے'۔

اعجاز احمد ڈار کی تین بیٹیاں ہیں جن میں سے دو اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ بے روزگاری کے عالم میں وہ اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اپنی اہلیہ سے کچھ پیسے لے کر سڑک کے کنارے پر کپڑے بیچنے کا کام شروع کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں کبھی ان کی گاڑی سواریاں اٹھایا کرتی تھی، آج وہیں پر وہ کپڑے بیچتے ہیں۔

اعجاز احمد ڈار نے کہا کہ 'میری اہلیہ کو اپنے کانوں کی بالیاں بیچنی پڑیں۔ اس رقم سے یہ کپڑے خریدے اور ایک گاڑی کرائے پر لی جس کا یومیہ کرایہ چار سو روپے ہے۔ بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔ دو سو، چار سو روپے ہی کما پاتا ہوں اور کبھی خالی ہاتھ ہی گھر لوٹ جاتا ہوں'۔

یہ بھی پڑھیے: پہلگام میں موبائل نیٹ ورک کی عدم دستیابی

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہماری خبر لینے نہ حکومتی نمائندے آئے اور نہ ہی کوئی غیر سرکاری تنظیم۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کی اسکول کی فیس اور دیگر اخراجات مجھ پر ہی ہیں۔ میں ہر اس حد تک جاؤں گا کہ انہیں بہتر زندگی دے پاؤں تاکہ انہیں وہ سب نہ دیکھنا پڑے جو ان کے والد نے دیکھا۔ میری حالت تو ایسی ہے کہ اب آنکھوں سے آنسو بھی نہیں آتے'۔

جموں و کشمیر میں کووڈ مثبت معاملوں میں کمی کے بعد لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں نرمی برتی گئی ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جو لوگ لاک ڈاؤن سے متاثر ہوئے ہیں ان کے نقصان کی بھرپائی کب اور کیسے ہو گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.