عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث جہاں پوری دنیا پریشان ہے اور لوگ گھر سے باہر نکلنے میں خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر روز اپنی جان جوکھم میں ڈال کر کووڈ مثبت مریضوں کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس دوران ڈاکٹر، طبی عملہ، حفاظتی اہلکار اور صحافی قابل تعریف کام کر رہے ہیں۔ وہیں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے منسلک ایمبولینس ڈرائیور بھی قابل ستائش کام انجام دے رہے ہیں۔ سرینگر کے رہنے والے ایمبولینس ڈرائیور جمیل احمد ڈیجو کے کارنامے بھی قابل تعریف ہیں۔
پوری دنیا کے ساتھ ساتھ سری نگر میں بھی کورونا وائرس سے ہوئی ہلاکتوں میں آئے دن اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور بڑھتے خدشات کی وجہ سے لوگ فوت ہوئے افراد کے نزدیک جانے سے پرہیز کر رہے ہیں لیکن سری نگر شہر کے بربر شاہ علاقے کے رہنے والے جمیل احمد ڈیجو گزشتہ دو مہینوں سے کورونا وائرس مریضوں کو اسپتال پہنچانے سے لے کر وائرس سے متاثرہ شخص کی موت کے بعد انہیں آخری رسومات کے لئے قبرستان پہنچانے کے کام کو انجام دے رہے ہیں۔ اس دوران وہ آخری رسومات میں شرکت بھی کرتے ہیں۔ جمیل کے کام کی وجہ سے ان کی ہر طرف حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
گزشتہ گیارہ برسوں سے ایمبولنس چلا رہے جمیل کا کہنا ہے کہ 'عالمی وبا کی وجہ سے لوگ خوف زدہ ہیں اور لاشوں کے نزدیک جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ مجھے بھی ڈر لگتا تھا لیکن اب اللہ کی مہربانی ہے کہ میں تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرتا ہوں اور کورونا متاثر مریضوں کی خدمت کرتا ہوں۔'
ان کا مزید کہنا ہے کہ 'میں نے اپنے گھر والوں کو رشتہ داروں سے نہ ملنے کی ہدایت دی ہے کیونکہ اس وقت پرہیز ہی حل ہے۔ جب میں نے پہلی لاش قبرستان میں پہنچائی تب وہاں میرے علاوہ صرف دو لوگ تھے۔ ہم میں سے کسی کو بھی قبر کھودنی نہیں آتی تھی۔ جیسے تیسے کر کے وہ کام کیا۔ میں اس فوت ہوئی خاتون سے ہر وقت معافی مانگتا ہوں کی مجھ سے اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو درگزر کردے۔'
جمیل کا کام صرف لاشوں کو ان کے آخری مقام تک پہنچانا نہیں بلکہ فوت ہوئے افراد کے رشتہ داروں کو آخری رسومات کے تحت تیاریوں کی جانکاری بھی دینا ہے۔ ان کے پاس جب بھی کال یا میسیج آتا ہے، وہ فوت ہوئے افراد کے رشتہ داروں کو فون کر کے تمام باتیں سمجھاتے ہیں۔
جمیل کا کہنا ہے کہ 'یہ میری آج کی تیسری لاش ہے۔ صبح گھر سے نکلتے وقت ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ آج اور کوئی وفات نہ ہو لیکن اللہ کی جو مرضی ہے وہ ضرور ہوتی ہے۔ میری دعا ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ اس وجہ سے کوئی اور بات نہ ہو۔ جب فون یا میسیج آتا ہے تو ان کو میں تمام تیاریوں کے بارے میں آگاہ کر دیتا ہوں۔
شیر کشمیر انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے آنے والی لاش تابوت میں نہیں ہوتی اسی لئے قبر کھودنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہی چیسٹ انڈ ڈیز ہاسپیٹل اور ایس ایم ایچ ایس ہسپتال سے آنے والی لاشیں تابوت میں ہوتی ہیں۔ اس لیے قبریں گہری کھود نہیں پڑتی ہیں۔ جب سب تیاریاں ہو جاتی ہیں تبھی میں ہسپتال سے لاش کو قبرستان لاتا ہوں۔"
مقامی لوگ اکثر ہسپتال میں ہوئی اموات کو ڈاکٹروں کی لاپرواہی قرار دیتے ہیں اور اس وجہ سے اکثر رشتہ داروں اور طبی عملے کے درمیان جھڑپیں اور بحث دیکھی گئی ہے لیکن جمیل کا ماننا ہے ان کے ساتھ ایسا کوئی بھی مسئلہ پیش نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہماری وادی کے لوگ کافی تعاون کرتے ہیں۔ وہ سمجھدار ہیں۔ ہمارے محکمے نے بھی ہمارے لئے تمام سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔ بس میری شکایت بھارت کے تمام ایمبولینس ڈرائیوروں سے ہے جو کبھی کبھار ان مریضوں کے رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ جب کسی کی وفات ہوتی ہے اس کے رشتہ داروں پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اور آپ کے رویہ سے وہ مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم صبر سے کام لیں۔"
قابل ذکر ہے کہ سری نگر میں کرونا وائرس سے فوت ہوئے افراد کی لاشیں صرف جمیل احمد ہی ان کے رشتہ داروں تک پہنچاتے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرنے سے قبل جمیل تین لاشوں کو ان کے رشتیداروں کے حوالے کرچکے ہیں۔ ایک فوت ہوئی بزرگ خاتون کے آخری سفر میں ای ٹی وی بھارت بھی ان کے ساتھ تھا اور اس کے بعد انہیں ایک دوسرت سفر پر نکلنا تھا۔