سرینگر میں قائم چھاپڑی فروشوں کے لیے مخصوص اس مارکیٹ میں خریداروں کی اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو ملتی تھی لیکن اب یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھیٹے دکھائی دے رہے ہیں۔
کیا غم ہے جو ستا رہا ہے۔۔۔ گزشتہ برس کے لاک ڈاون نے نہ صرف کاروبار کو بری طرح متاثر کیا بلکہ ایک بڑے طبقے کا روزگار بھی چھینا۔ وہیں اب موجودہ صورتحال کے پیش نظر لاک ڈاون کو یاد کرتے ہوئے تجارت پیشہ افراد خاص کر چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر ایک مرتبہ پھر خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں۔دفعہ 370 کی منسوخی اور پھر کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر رہنے کے بعد اب انہیں امید تھیں کہ اس برس کاروباری سرگرمیاں بہتر طور جاری رہیں گی۔ تاہم وادی کشمیر، بالخصوص شہر سرینگر میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کو دیکھتے ہوئے پھر سے لاک ڈاؤن ہونے کا غم ان چھاپڑی فروشوں کو ستا رہا ہے۔یہ ایسا طبقہ ہے جو دن میں کماتا اور شام کو کھاتا ہے۔ وہیں اس بازار میں اکثر ایسے چھاپڑی فروش بھی ہیں جنہوں نے اپنا کام کاج پھر سے شروع کرنے کے لیے بینک سے قرض لیا یے۔ یہ چھاپڑی فروش کہتے ہیں کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ابھی سے ہی اپنے گھر کے اخراجات جٹانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ وہیں اگر انتظامیہ کی جانب سے پھر سے مکمل لاک ڈاون کا نفاذ عمل میں لایا گیا تو نان شبانہ کے محتاج بن جائیں گے۔ واضح رہے کہ انتظامیہ نے جموں و کشمیر کے سبھی اضلاع میں رات دس بجے سے صبح چھ جے تک شبانہ کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں بازاروں میں روزانہ صرف 50 فیصد دکانیں ہی کھلی رکھنے کی اجازت دی ہے۔