یوم مزدور ہر برس یکم مئی کو منایا جاتا ہے لیکن آج کا یوم مزدور گزشتہ برس کی ہی طرح ماضی کی بنسبت یکسر مختلف ہے۔ آج نہ کوئی جلسہ ہوا اور نہ ہی کوئی ریلی منعقد ہوئی۔ نہ تو محنت کش سڑکوں پر نکلے اور نہ ہی 'ہماری مانگیں پوری کرو' یا 'انصاف کرو انصاف کرو' جیسے نعرے فضاؤں میں کہیں گونج سکیں۔
ملک بھر کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی مزدوروں کا عالمی دن کورونا وائرس کے خوفناک سائے تلے اور جاری لاک ڈاؤن کے بیچ منایا گیا۔ اس مرتبہ بھی یہ دن ایک ایسے وقت میں آیا جب کورونا وائرس کی دوسری لہر پورے ملک کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی اپنا قہر برپا کر رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سائیکل کو توڑنے کے لئے لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ جاری لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ہر سو خوف اور دہشت کا عالم ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے لگایا گیا یہ لاک ڈاؤن حق بجانب ہے لیکن اس بیچ کئی سماجی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
معمول کی سرگرمیاں مفلوج ہونے سے سماج کا وہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو کہ دن میں محنت مزدوری کر کے شام کی خاطر اپنے اہل و عیال کے لئے روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ جس میں یومیہ مزدوری، ریڑی والے، خوانچہ فروش، مختلف کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور، ڈرائیور، کنڈکٹر اور چھاپڑی فروش وغیرہ شامل ہیں۔
مالی لحاظ سماج کے کمزور طبقے کے لوگوں کا جب روزگار چھن جاتا ہے تو اس کا اثر براہ راست ان کے کنبوں پر پڑتا ہے۔ وادی کشمیر میں کورونا کی سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر کورونا لاک ڈؤان میں توسیع کی گئی تو مزدوروں، چھاپڑی فروشوں اور دیگر کامگاروں کو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے جس سے سماج میں مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'کشمیری قیدیوں کو تہاڑ جیل سے وادی بھیجا جائے'
یوں تو مزدور اور محنت کش طبقہ ہمیشہ مسائل و مشکلات میں گھرا رہتا ہے اور ہر برس یکم مئی کے دن ان لوگوں کے درپیش مشکلات کو کم کرنے کے حوالے سے عہد و پیماں کیا جاتا ہے لیکن وہ الگ بات ہے کہ بعد میں نہ ہی سرکاری اور نہ ہی نجی سطح پر ان کے حقوق کی پاسداری پر عمل درآمد کرنے کی کوئی زحمت کرتا ہے۔
ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی میں کامگار طبقہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بڑی بڑی صنعتیں، کارخانے اور فیکٹریاں انہیں سے چلتی ہیں۔ اس لئے مزدور کسی بھی ادارے یا کسی بھی قوم کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔