سرینگر میں بچوں کے خلاف جرائم میں کافی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں اپریل 2022 سے اپریل 2023 کے درمیان بچوں کے خلاف جرائم 71 واقعات سامنے آئے ہیں۔ جن میں عصمت دری کے 22 واقعات، بچوں سے زبردستی بھیک منگوانے کے 40 واقعات، بچوں کو لاوارث چھوڑنے کے 2 واقعات اور بچے کو ترک کرنے کا ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ بچوں کے خلاف بڑھتے جرائم، بہبود اور چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کی ذمہ داریوں سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر خیرالنساء سے خصوصی بات چیت کی۔
اس دوران خیراالنسا نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بچوں کے خلاف مجموعی جرائم میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سال 2022 سے اب تک بچیوں کی جنسی زیادتی کے 22 واقعات سامنے آئے ہیں اور افسوس ناک امر ہے کہ اجنبیوں کے علاوہ متاثرہ لڑکیوں کے قریبی رشتہ داروں بھی زیادتی کے ان واقعات ملوث پائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چند برسوں کے دوران بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں لوگوں میں کافی بیداری آئی ہے اس کے لیے کینسز سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان بچیوں کے والدین کی کونسلنگ کے بعد گھروں کو روانہ کر دیا گیا ہے جبکہ جرائم میں ملوث افراد کے خلاف POCSO ایکٹ کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم میں زبردستی بھیک منگوانا، سڑک پر دیگر کام کروانا بھی شامل ہے ایسے ہمارے پاس 40 کیسز سامنے آئے ہیں جہاں ہم نے بچوں کو بازیاب کر کے ان کی کونسلنگ کی ہے۔ بچوں سے مزدوری کرانا بھی لیبر ایکٹ کے تحت جرائم میں آتا ہے اور لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرانے والوں سے ہم نے6 بچوں کو بھی آزاد کرایا ہے۔
وہیں صوبے میں بچوں کی اسمگلنگ کے معاملات بھی سامنے آتے اور اب تک 3 بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس سے یتیم ہونے والے بچوں کی بھی مختلف اسکیم کے ذریعے مدد کی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خیر النساء نے کہا کہ سرینگر میں بچوں کی بہبود کے لیے 21 سرکاری بازآباد کاری ادارے کے کام کر رہے ہیں۔ جن میں سرکاری سطح کے 5 جبکہ غیر سرکاری ایسے 16 ادارے( یتیم خانے) بھی شامل ہیں۔ ایسے میں مذکورہ اداروں میں متاثرہ بچوں کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ مرکوز کی جارہی ہیں۔
ڈاکٹر خیر النساء نے کہا کہ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی سرینگر نے وادی کشمیر میں قائم تمام بچوں کے لیے دیکھ بھال کے لیے قائم کیے گئے اداروں کو رجسٹر کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ کیونکہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسے کئی سارے غیر سرکاری ادارے ہیں جو تسلیم شدہ نہیں ہے۔ چائلڈ کئیر ہومز مختلف زیادتیوں کے شکار بچوں کی زندگیاں بہتر بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں اس نیک مشن میں شامل تمام ایسے ادارے رجسٹر کیے جانے چائیے۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ اداروں کی رجسٹریشن صرف ایک قانونی ضرورت نہیں ہے بلکہ بچوں کی معیاری دیکھ بھال اور ترقی کے لیے بھی لازمی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نیشل کرائم بیورو کے مطابق سال 2019 میں جموں وکشمیر میں بچوں کے خلاف جرائم کے 299 سال 2020 میں 171 اور سال 2023 میں اب تک 323 جبکہ سال 2022 میں 408 معمالات سامنے آئے ہیں۔