سرینگر کے رینہ واری علاقے سے تعلق رکھنے والی سکھ مذہب کی ایک لڑکی نے عدالت میں ایک مسلمان سے شادی کر لی، جس کے بعد یہاں کی سکھ کمیونٹی میں کافی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سرینگر کے باغات برزلہ علاقے میں آج سکھ مذہب سے وابستہ افراد نے احتجاج کیا۔
انہوں نے انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ 'سکھ کمیونٹی کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل جب وہ اس معاملے پر انصاف کی مانگ کر رہے تھے تو پولیس نے انہیں نظر انداز کیا'۔
آج جو احتجاج ہوا اس میں کشمیر سے تعلق رکھنے والی سکھ کمیونٹی کے افراد کے علاوہ دہلی گردوارہ منیجمنٹ کمیٹی ممبران نے بھی شرکت کی۔ احتجاج میں دہلی گردوارہ منیجمنٹ کمیٹی کے ادیکش منجیت سنگھ سرسا نے بھی شرکت کی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہمارے مذہب کی لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ زبردستی نکاہ پڑھا جاتا ہے۔' انہوں نے کہا کہ 'آج تک کشمیر میں ایسے مختلف واقعات پیش آئے ہیں اور ہمیشہ سکھ افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے'۔
احتجاجیوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اتر پردیش میں جس طرح کا قانون یوگی آدتیہ ناتھ نے نافذ کیا ہے اسی طرح کا قانون کشمیر میں بھی نافذ ہونا چاہیے تاکہ یہاں دوسرے مذہب میں شادی کرنے پر پابندی لگ جائے'۔
یہ بھی پڑھیں: راجناتھ سنگھ نے سابق فوجیوں سے ملاقات کی
احتجاجیوں نے باغات چوک میں دھرنا دیا اور آئی جی روڈ پر کافی دیر تک ٹریفک بند رہا۔ اس کے بعد ایس ایس پی سندیپ کمار نے موقع پر پہنچ کر احتجاجیوں کو یقین دلایا کہ سکھ طبقے کے افراد کی بات سنی جائے گی۔ جس کے بعد سڑک پر دھرنے کو ختم کیا گیا۔
احتجاجیوں نے لو جہاد مردہ باد کے بھی نعرے بلند کیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'یہاں پر طالبان جیسا نظام قائم نہیں ہوگا'۔ انہوں نے کہا کہ 'جب تک انتظامیہ ان کے مطالبات کو پورا نہیں کرے گے وہ احتجاج جاری رکھیں گے'۔
خیال رہے کہ کل ایک سکھ مذہب کی اٹھارہ سالہ لڑکی نے ایک پینتالیس سالہ مسلم مرد سے کورٹ میں شادی کی جس کی وجہ سے سکھ کمیونٹی کے افراد نے احتجاج کیا۔