ایک زمانے میں کشمیر میں معروف نوجوان لیڈر کی حیثیت سے ابھرنے والے شیخ تجمل، گزشتہ چار دہائیوں سے جلاوطن تھے۔ وہ اسلام آباد میں ’کشمیر میڈیا سروس‘ نامی ادارے کے سربراہ تھے جسے حکومت ہند ایک پروپیگنڈا ادارہ تصور کرتی ہے۔
شیخ تجمل اسلام کا انتقال جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں کے لیے ایک ہی ہفتے میں دوسرا بڑا دھچکہ ہے۔ اس سے قبل 2 ستمبر کو سرینگر کے حیدر پورہ میں حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی کا انتقال ہوا۔ حکام نے گیلانی کے انتقال پر کشمیر میں ممکنہ احتجاج کو روکنے کیلئے کشمیر میں لوگوں کی نقل و حرکت محدود کی اور مواصلاتی نظام پر کلی یا جزوی پابندی عائد کی۔ گیلانی کی میت کو رات کے اندھیرے میں ہی دفن کرادیا گیا۔
ذرائع کے مطابق تجمل اسلام کا انتقال پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک اسپتال میں 5 ستمبر کی رات ہوا۔ وہ کئی روز سے علیل تھے۔
شیخ تجمل اسلام کا تعلق سرینگر کے برزلہ علاقے سے تھا۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں سرینگر میں وکالت شروع کی تھی لیکن جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر وہ مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم رہے۔
وہ جماعت اسلامی کی طلبہ ونگ، اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد وہ پہلی بار اس وقت سرخیوں میں آئے جب انہوں نے کشمیر میں بھی ایرانی طرز پر ’انقلاب‘ لانے کا نعرہ لگایا۔ جماعت اسلامی نے بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنے نظم سے خارج کیا جب کہ جمعیت کے ارکان کو گرفتار کیا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ تجمل اسلام 1984 میں نیپال منتقل ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے بعد میں پاکستان جاکر وہیں کی سکونت اختیار کی۔
ذرائع کے مطابق 1989 میں جب کشمیر میں پاکستان کی اعانت سے مبینہ مسلح شورش کا آغاز ہوا تو تجمل اسلام بھی اس کے اعانت کار بنے۔
بعد میں انہیں کشمیر میڈیا سروس کا سربراہ بنایا گیا جو پاکستان اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کو کشمیر کے بارے میں خبریں اور تجزیے فراہم کرتا ہے۔
بھارت میں کشمیر میڈیا سروس کی خبروں کو پاکستانی اعانت یافتہ پروپیگنڈا قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : گیلانی کے اہل خانہ کے خلاف ایف آئی آر درج
اسلام آباد میں تجمل اسلام کے رابطے سفارت کاروں، صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ تھے۔
جموں و کشمیر پولیس نے 2000 میں سرینگر کی پریس کالونی سے ایک نوجوان کو گرفتار کیا تھا جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کشمیر میڈیا سروس کے ساتھ وابستہ تھا۔