کشمیر میں عام خدشہ ہے کہ انتظامیہ اصل میں اس ٹاسک فورس کے ذریعے کشمیری ملازمین کو سرکاری نوکریوں سے سبکدوش کرنے کا ایک منصوبہ بنا رہی ہے۔
یہ ٹاسک فورس اس بات کی جانچ کرے گی کہ کیا ملازمین کے متعلق دفعہ311 کی شق کی ذیلی شق (C) کے تحت کارروائی کی ضرورت تو نہیں۔ گزشتہ برس لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے اس سلسلے کی تیاری کرتے ہوئے جموں و کشمیر چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم کی قیادت میں ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ چیف سیکریٹری بی وی آر سبرامنیم کی سربراہی میں اس کمیٹی میں پولیس سربراہ، محکمہ داخلہ، جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ، محکمہ قانون کے ایڈمنسٹریٹیو سیکریٹریز اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ’سی آئی ڈی‘ اس کے ممبران بنائے گئے۔ بدھ کے حکمنامے کے مطابق سپیشل ٹاسک فورس ملازمین کے تحقیقاتی رپورٹ چیف سیکریٹری قیادت والی کمیٹی کو سپرد کر دے گی جو لیفٹیننٹ گورنر یا صدر جمہوریہ کے ساتھ مشاورت کر کے ملازم کی سبکدوشی کا فیصلہ لے گی۔
دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد یہ پہلی ایسی کمیٹی ہوگی جو سرکاری ملازمین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ جموں و کشمیر عدالت عالیہ کے سابق جسٹس اور نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ آئین کی دفعہ 16 اور دفعہ 311 سرکاری ملازم کو نوکوی کا تحفظ دے رہے ہیں، لیکن ٹاسک فورس جیسے کمیٹیاں تشکیل دینے سے یہ احتمال ہے کہ سرکار دفعہ 311 کو ملازمین کے خلاف ایک ہتکھنڈے کے طور استعمال کرے گی۔
پی ڈی پی نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا کہ جب انتطامیہ کو کووڈ وبا سے نمٹنے پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے، یہ تھاٹ پولیسنگ اور انفارمیشن بلاکیڈ میں مصروف ہے۔ نوجوان سماجی کارکن سید منتظر مہدی نے فیس بک پر لکھا کہ ملازمین کو مجرم بنانا اور ان کی ذاتی آزادی چھیننے سے عوام میں انتظامیہ کے تئیں مزید دوریاں بڑھائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹاسک فورس کی تشکیل سے کشمیری مسلمان ملازمین کو نشانہ بنایا جائے گا۔