ایک جائزے کے مطابق شہر سرینگر میں 2 لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیاں روزانہ سڑکوں پر دوڑتی ہیں۔ بڑھتے ٹریفک کے دباؤ سے شہر کے اکثر مقامات پر ٹریفک جام کے بدترین مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس صورتحال کے بیچ راہ چلتے لوگوں کو چلنے پھرنے میں نہ صرف دشواریاں پیش آتی ہیں بلکہ کئی تو حادثات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
شہر سرینگر کے اکثر مقامات پر موٹر سائیکل سواروں کو حادثات کا شکار ہوتے دیکھا جاتا رہا ہے۔ کہیں ٹیوشن کے نام پر، کہیں اسکول تو کہیں کالج کے نام پر کم عمر لڑکے والدین کو موٹر سائیکل خریدنے پر مجبور کرتے ہیں اور بعد میں یہی سواری کئی نوجوان کے موت یا جسمانی طور سے معذوری کا باعث بنتی ہے۔
ٹریفک پولیس نے گزشتہ برس ایک زور دار مہم موٹر سائکل سواروں کے خلاف شروع کی تھی جس دوران سینکڑوں موٹر سائیکل ضبط کئے گئے وہیں درجنوں کے خلاف عدالت میں چالان بھی پیش کیے گئے تھے۔ لیکن اب یہ مہم سرد پڑگئی اور نتیجے کے طور آج پھر سڑکوں پر موت کا رقص دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ڈی ایس پی عادل شیخ کہتے ہیں کہ کئی والدین اپنے کم عمر بچوں کو بنا سوچے سمجھے ہائی سپیڈ موٹر سائکل یا کارچلانے کے لئے آسانی سے دے دیتے ہیں جس کے باعث سڑکوں پر بھیانک حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
ادھر شہر سرینگر میں پارکنگ کی معقول سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ دکاندار حضرات اور گاہک اپنی گاڑیوں کو سڑک کے کنارے ہی کھڑا کر دیتے ہیں۔ جس سے ٹریفک کی آمدورفت میں کافی خلل پڑتا ہے اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ فٹ پاتھوں پر یا تو دکانداروں یا پھر چھاپڑی فروشوں نے قبضہ جما رکھا ہے جس کے باعث پیدل چلنے والے بیچ سڑک پر چلنے کو مجبور ہوتے ہیں۔ نتیجتا یہ صورتحال بھی حادثات کی وجہ بن جاتی ہے ۔
ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے اور بڑھتے ٹریفک حادثات کو روکنے کے لیے دور رس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی اپنی اپنی زمہ داریوں کو نبھانے کی اشد ضرورت ہے۔