جہاں سری نگر کے ہائی سیکورٹی زون میں واقع شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں ہونے والی یوم جمہوریہ کی تقریب کے پیش نظر جنگجوئوں کے کسی بھی حملے کو ناکام بنانے یا لوگوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سری نگر کے بعض حصوں میں اتوار کو سیکورٹی رکاوٹیں کھڑی دیکھی گئیں وہیں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر وادی بھر میں مواصلاتی خدمات زائد از بارہ گھنٹوں تک منقطع رکھی گئیں۔
تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ سری نگر کے پائین شہر (پرانے شہر) اور سول لائنز کے تاریخی لالچوک و مائسمہ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر کرفیو جیسی پابندیاں نافذ نہیں کی گئیں۔
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر پائین شہر اور سول لائنز میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کرنا ایک معمول بن چکا تھا۔ دونوں علاقوں میں ان موقعوں پر سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کیا جاتا تھا۔
جموں کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام خطہ بن جانے کے بعد یہ پہلی بار ہے جب یہاں یوم جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ کے علاوہ ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا گیا تھا اور بعد ازاں جموں کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں کشمیر مرکز کے زیر انتظام خطہ بن گیا اور لداخ الگ یونین ٹریٹری کے بطور نقشہ ہستی پر نمودار ہوا۔
وادی میں مزاحمتی لیڈران ہر سال یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے اور مکمل ہڑتال کی کال دیتے تھے لیکن سال گزشتہ کے ماہ اگست کی پانچ تاریخ سے تمام مزاحمتی لیڈران تھانہ یا خانہ نظر بند ہیں۔
تاہم وادی میں اتوار کو یوم جمہوریہ کے موقع پر غیر اعلانیہ ہڑتال کی گئی۔ دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آواجاہی معطل رہی۔ تاہم سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور بینک سرکاری تعطیل ہونے کی وجہ سے بند رہے۔ سری نگر کے سیول لائنز میں ہر اتوار کو لگنے والا سنڈے مارکیٹ بھی بند رہا۔ تاہم دوپہر بعد کچھ ریڑے والے نمودار ہوئے جنہوں نے اپنا سامان سجایا تاہم گاہک نظر نہیں آئے۔
..ادھر یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران شیر کشمیر اسٹیڈیم کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا تھا۔ سری نگر کے سیول لائنز کے مختلف علاقوں خاص طور پر ڈل گیٹ، سونہ وار، ٹی آر سی کراسنگ، نمایش کراسنگ، تاریخی لالچوک، مائسمہ میں بلٹ پروف گاڑیاں تعینات کردی گئی تھیں اور وہاں تعینات جموں وکشمیر پولیس اور سیکورٹی فورسز اہلکار گاڑیوں کی باریک بینی سے تلاشی لیتے اور ان میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے نظر آئے۔
کسی بھی ناگہانی واقعہ سے نمٹنے کے لئے شیر کشمیر اسٹیڈیم کے گردونواح میں ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔ نزدیک میں واقع ڈل گیٹ ، ٹی آر سی اور ریڈیو کشمیر کراسنگ پربھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔ کسی بھی طرح کے فدائین حملے سے نمٹنے کے لئے اونچی اونچی عمارتوں بالخصوص سلیمان ٹینگ چوٹی پر شارپ شوٹرس کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔
شیر کشمیر اسٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک کو چند روز قبل ہی سیکورٹی وجوہات کی بناء پر عام شہریوں کی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران اسٹیڈیم اور اس کے گرد ونواح میں واقع علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعہ نگرانی انجام دی گئی۔
..بتادیں کہ سری نگر میں یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی تقریبات ایئرپورٹ روڑ پر واقع بخشی اسٹیڈیم میں منعقد کی جاتی تھیں تاہم وہاں مرمت کا کام جاری ہونے کی وجہ سے ان تقریبات کو گزشتہ چند برسوں سے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں منعقد کیا گیا۔
سیکورٹی خدشات کے پیش نظر وادی کشمیر میں مواصلاتی خدمات از 18 گھنٹوں تک منقطع رکھی گئیں۔ تمام مواصلاتی کمپنیوں نے اپنی خدمات ہفتہ اور اتوار کی نصف شب کو معطل کردی تھیں۔ یہ خدمات بعد ازاں اتوار کو شام کے وقت بحال کی گئیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت 31 اکتوبر 2019 کو معرض وجود میں آنے والے مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ میں یوم جمہوریہ کی تقریبات ایک پُرامن فضا میں منعقد ہوئیں۔
سیکورٹی ذرائع نے بتایا: 'ریاست بھر میں یوم جمہوریہ کی تقریبات کا پرامن انعقاد عمل میں آیا اور کسی بھی جگہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا'۔
..یوم جمہوریہ کے سلسلے میں جموں وکشمیر میں سب سے بڑی تقریب مولانا آزاد اسٹیڈیم جموں میں منعقد ہوئی جہاں لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی اور طلبا وطالبات، مرکزی نیم فوجی دستوں، جموں وکشمیر پولیس، ہوم گارڈ اور فائر اینڈ ایمرجنسی سروس کے دستوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے مارچ پاسٹ کی سلامی لی۔ تقریب میں لوگوں کی بڑی تعداد کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران، سینئر سول و سیکورٹی عہدیداروں نے شرکت کی۔
ادھر یوم جمہوریہ کے سلسلے میں وادی میں سب سے بڑی تقریب شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم سری نگر میں منعقد ہوئی جہاں گورنر کے مشیر فاروق خان نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی۔ اس موقع پر بعض سیاسی لیڈران کے علاوہ سینئر سول و سیکورٹی عہدیدار موجود تھے۔
شیر کشمیر اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والی یوم جمہوریہ کی تقریب میں اسکولی بچوں اور دوسرے فنکاروں نے کشمیری ثقافت اور حب الوطنی پر مبنی رنگا رنگ پروگرام پیش کئے۔ عام شہری اس تقریب سے دور ہی رہے۔
یونین ٹریٹری آف لداخ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں سخت سردی کے باوجود لیہہ اور کرگل اضلاع میں یوم جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہوئیں جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لیہہ میں ہونے والی تقریب میں لیفٹیننٹ گورنر رادھا کرشنا ماتھر نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی۔
...وادی کے مختلف اضلاع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بہت کم لوگوں نے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی۔ ان اطلاعات کے مطابق یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کرنے والے یا تو سرکاری ملازم تھے یا اسکولی بچے۔
خیال رہے کہ جموں وکشمیر حکومت نے اس بار بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں اپنے ملازمین کی شمولیت کو لازمی قرار دیا تھا۔ حکومت نے اس حوالے سے جاری کردہ سرکیولرس میں خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کو تادیبی کاروائی کا انتباہ کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی تقریبات میں شمولیت کو اس لئے لازمی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ جموں وکشمیر بالخصوص وادی میں عام شہری ایسی تقریبات کا کلی طور پر بائیکاٹ کرتے ہیں۔
دریں اثنا سیکورٹی ایجنسیوں نے شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم کے گردونواح میں کئی ایک حساس مقامات پر مشتبہ افراد کی نقل وحرکت پر قریبی نگاہ رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے تھے۔ سراغ رساں کتوں، میٹل ڈٹیکٹرس اور بم ڈسپوزل اسکوارڈ کی مدد سے اسٹیدیم اور چرچ لین میں واقع عمارتوں کی چیکنگ انجام دی گئی تھی۔
یوم جمہوریہ کی تقریبات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے وادی کے اطراف واکناف بالخصوص مختلف اضلاع کو گرمائی دارالحکومت کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے خصوصی ناکے بٹھائے گئے تھے جہاں چھوٹی بڑی گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی تھی اور ان میں سوار مسافروں کی جامہ تلاشی لینے کے علاوہ شناختی کارڈ چیک کئے جاتے تھے۔ چیکنگ کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھا۔
مکمل ہڑتال اور سخت سکیورٹی انتظامات کے بیچ یوم جمہوریہ کی تقریبات
وادی کشمیر میں اتوار کے روز ملک کے 71 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر غیر اعلانیہ اور مکمل ہڑتال کے سبب معمولات زندگی معطل رہے۔
جہاں سری نگر کے ہائی سیکورٹی زون میں واقع شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں ہونے والی یوم جمہوریہ کی تقریب کے پیش نظر جنگجوئوں کے کسی بھی حملے کو ناکام بنانے یا لوگوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سری نگر کے بعض حصوں میں اتوار کو سیکورٹی رکاوٹیں کھڑی دیکھی گئیں وہیں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر وادی بھر میں مواصلاتی خدمات زائد از بارہ گھنٹوں تک منقطع رکھی گئیں۔
تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں پہلی مرتبہ سری نگر کے پائین شہر (پرانے شہر) اور سول لائنز کے تاریخی لالچوک و مائسمہ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر کرفیو جیسی پابندیاں نافذ نہیں کی گئیں۔
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر پائین شہر اور سول لائنز میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کرنا ایک معمول بن چکا تھا۔ دونوں علاقوں میں ان موقعوں پر سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کیا جاتا تھا۔
جموں کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام خطہ بن جانے کے بعد یہ پہلی بار ہے جب یہاں یوم جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ کے علاوہ ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا گیا تھا اور بعد ازاں جموں کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت جموں کشمیر مرکز کے زیر انتظام خطہ بن گیا اور لداخ الگ یونین ٹریٹری کے بطور نقشہ ہستی پر نمودار ہوا۔
وادی میں مزاحمتی لیڈران ہر سال یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے اور مکمل ہڑتال کی کال دیتے تھے لیکن سال گزشتہ کے ماہ اگست کی پانچ تاریخ سے تمام مزاحمتی لیڈران تھانہ یا خانہ نظر بند ہیں۔
تاہم وادی میں اتوار کو یوم جمہوریہ کے موقع پر غیر اعلانیہ ہڑتال کی گئی۔ دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آواجاہی معطل رہی۔ تاہم سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور بینک سرکاری تعطیل ہونے کی وجہ سے بند رہے۔ سری نگر کے سیول لائنز میں ہر اتوار کو لگنے والا سنڈے مارکیٹ بھی بند رہا۔ تاہم دوپہر بعد کچھ ریڑے والے نمودار ہوئے جنہوں نے اپنا سامان سجایا تاہم گاہک نظر نہیں آئے۔
..ادھر یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران شیر کشمیر اسٹیڈیم کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا تھا۔ سری نگر کے سیول لائنز کے مختلف علاقوں خاص طور پر ڈل گیٹ، سونہ وار، ٹی آر سی کراسنگ، نمایش کراسنگ، تاریخی لالچوک، مائسمہ میں بلٹ پروف گاڑیاں تعینات کردی گئی تھیں اور وہاں تعینات جموں وکشمیر پولیس اور سیکورٹی فورسز اہلکار گاڑیوں کی باریک بینی سے تلاشی لیتے اور ان میں سوار افراد کے شناختی کارڈ چیک کرتے ہوئے نظر آئے۔
کسی بھی ناگہانی واقعہ سے نمٹنے کے لئے شیر کشمیر اسٹیڈیم کے گردونواح میں ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔ نزدیک میں واقع ڈل گیٹ ، ٹی آر سی اور ریڈیو کشمیر کراسنگ پربھاری تعداد میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔ کسی بھی طرح کے فدائین حملے سے نمٹنے کے لئے اونچی اونچی عمارتوں بالخصوص سلیمان ٹینگ چوٹی پر شارپ شوٹرس کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی۔
شیر کشمیر اسٹیڈیم کی طرف جانے والی سڑک کو چند روز قبل ہی سیکورٹی وجوہات کی بناء پر عام شہریوں کی گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران اسٹیڈیم اور اس کے گرد ونواح میں واقع علاقوں کی ڈرون کیمروں کے ذریعہ نگرانی انجام دی گئی۔
..بتادیں کہ سری نگر میں یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی تقریبات ایئرپورٹ روڑ پر واقع بخشی اسٹیڈیم میں منعقد کی جاتی تھیں تاہم وہاں مرمت کا کام جاری ہونے کی وجہ سے ان تقریبات کو گزشتہ چند برسوں سے شیر کشمیر اسٹیڈیم میں منعقد کیا گیا۔
سیکورٹی خدشات کے پیش نظر وادی کشمیر میں مواصلاتی خدمات از 18 گھنٹوں تک منقطع رکھی گئیں۔ تمام مواصلاتی کمپنیوں نے اپنی خدمات ہفتہ اور اتوار کی نصف شب کو معطل کردی تھیں۔ یہ خدمات بعد ازاں اتوار کو شام کے وقت بحال کی گئیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت 31 اکتوبر 2019 کو معرض وجود میں آنے والے مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ میں یوم جمہوریہ کی تقریبات ایک پُرامن فضا میں منعقد ہوئیں۔
سیکورٹی ذرائع نے بتایا: 'ریاست بھر میں یوم جمہوریہ کی تقریبات کا پرامن انعقاد عمل میں آیا اور کسی بھی جگہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا'۔
..یوم جمہوریہ کے سلسلے میں جموں وکشمیر میں سب سے بڑی تقریب مولانا آزاد اسٹیڈیم جموں میں منعقد ہوئی جہاں لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی اور طلبا وطالبات، مرکزی نیم فوجی دستوں، جموں وکشمیر پولیس، ہوم گارڈ اور فائر اینڈ ایمرجنسی سروس کے دستوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے مارچ پاسٹ کی سلامی لی۔ تقریب میں لوگوں کی بڑی تعداد کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران، سینئر سول و سیکورٹی عہدیداروں نے شرکت کی۔
ادھر یوم جمہوریہ کے سلسلے میں وادی میں سب سے بڑی تقریب شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم سری نگر میں منعقد ہوئی جہاں گورنر کے مشیر فاروق خان نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی۔ اس موقع پر بعض سیاسی لیڈران کے علاوہ سینئر سول و سیکورٹی عہدیدار موجود تھے۔
شیر کشمیر اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والی یوم جمہوریہ کی تقریب میں اسکولی بچوں اور دوسرے فنکاروں نے کشمیری ثقافت اور حب الوطنی پر مبنی رنگا رنگ پروگرام پیش کئے۔ عام شہری اس تقریب سے دور ہی رہے۔
یونین ٹریٹری آف لداخ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں سخت سردی کے باوجود لیہہ اور کرگل اضلاع میں یوم جمہوریہ کی تقریبات منعقد ہوئیں جن میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لیہہ میں ہونے والی تقریب میں لیفٹیننٹ گورنر رادھا کرشنا ماتھر نے پرچم کشائی کی رسم انجام دی۔
...وادی کے مختلف اضلاع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بہت کم لوگوں نے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی۔ ان اطلاعات کے مطابق یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کرنے والے یا تو سرکاری ملازم تھے یا اسکولی بچے۔
خیال رہے کہ جموں وکشمیر حکومت نے اس بار بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات میں اپنے ملازمین کی شمولیت کو لازمی قرار دیا تھا۔ حکومت نے اس حوالے سے جاری کردہ سرکیولرس میں خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کو تادیبی کاروائی کا انتباہ کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کی تقریبات میں شمولیت کو اس لئے لازمی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ جموں وکشمیر بالخصوص وادی میں عام شہری ایسی تقریبات کا کلی طور پر بائیکاٹ کرتے ہیں۔
دریں اثنا سیکورٹی ایجنسیوں نے شیر کشمیر کرکٹ اسٹیڈیم کے گردونواح میں کئی ایک حساس مقامات پر مشتبہ افراد کی نقل وحرکت پر قریبی نگاہ رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے تھے۔ سراغ رساں کتوں، میٹل ڈٹیکٹرس اور بم ڈسپوزل اسکوارڈ کی مدد سے اسٹیدیم اور چرچ لین میں واقع عمارتوں کی چیکنگ انجام دی گئی تھی۔
یوم جمہوریہ کی تقریبات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے وادی کے اطراف واکناف بالخصوص مختلف اضلاع کو گرمائی دارالحکومت کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے خصوصی ناکے بٹھائے گئے تھے جہاں چھوٹی بڑی گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی تھی اور ان میں سوار مسافروں کی جامہ تلاشی لینے کے علاوہ شناختی کارڈ چیک کئے جاتے تھے۔ چیکنگ کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تھا۔