سنہ 2019 کے مارچ ماہ میں عدالت عظمیٰ کے حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے جموں کشمیر میں بھی بچوں کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کے معاملات کی سماعت کے لیے چار خصوصی عدالتیں (پاکسو کورٹ) قائم کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ ان میں سے دو خصوصی عدالت نے سرینگر اور جموں میں قائم کی جانی تھی جبکہ دو فاسٹ ٹریک خصوصی عدالت ضلع رامبن اور کولگام میں قائم ہونی تھی۔ اگرچہ یہ وقت پر قائم نہ کی جاسکی تاہم دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کی وجہ سے ان عدالتوں کو قائم کرنے میں وقت لگا تاہم سن 2020 کے ستمبر ماہ میں سرینگر کے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس میں ایک علیحدہ کمپلکس قائم کیا گیا جہاں معاملات کی سماعت شروع کی گئی۔ ایسے ہی کمپلکس جموں، کولگام اور رامبن میں بھی قائم کیے گئے۔
جموں و کشمیر کے لا ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "اگرچہ علحیدہ کمپلیکس بنانے میں تاخیر ہوئی، بچوں کے ساتھ کیے گئے جرائم کے معاملات پر سماعت سن 2019 کے مارچ کے مہینے سے شروع ہو چکی تھی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "جموں کشمیر کے ناسازگار حالات کی وجہ سے ان عدالتوں کے حوالے سے عوام کو زیادہ جانکاری نہیں دی جا سکی۔ اس کے باوجود بھی دو درجن کے قریب معاملات ان عدالتوں میں زیر بحث ہے۔ ان معاملات میں سے دس معاملے سرینگر کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ ان معاملات کے حوالے سے میں آپ کو زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ کمسن بچوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔"وہیں آغاز سے ہی خواتین اور بچوں کے معاملات کی پیروی کرنے والی وکیل فضا فردوس کا کہنا ہے کہ "بچوں کے ساتھ جرائم کے معاملات خصوصی عدالتوں میں سنے جاتے ہیں۔ سری نگر میں 9 مارچ 2019 کو خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے جہاں چار دیواری کے اندر کافی بہترین اور ملنسار ماحول میں سماعت کی جاتی ہے۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ "متاثرہ بچے کی پہلے کونسلنگ ہوتی ہے۔ عدالت میں وکیل اور جج بھی کافی احتیاط برتتے ہیں۔ انہیں پوری طرح سے تحفظ اور آرام دہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ فیصلہ آنے میں وقت لگتا ہے کیونکہ ان معاملوں میں ہر ایک پہلو کو دیکھنا پڑتا ہے۔ جب ایک بچے کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی ہوتی ہے تو اس میں کئی افراد واسطہ یا بالواسطہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی قصوروار نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر ایک پہلو کو عدالت کے سامنے لانا پڑتا ہے۔ بچے کو بھی عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے کیوں کہ وہی مجرم کی شناخت صحیح طریقے سے کر سکتا ہے۔"سزا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "معاملہ کتنا سنگین ہے اس بنیاد پر سزا دی جاتی ہے۔ کم سے کم سزا دس سال ہوتی ہے جو عمر قید تک بڑھ بھی سکتی ہے۔ اگر معاملہ زیادہ سنگین ہے تو بارہ سال کی سزا یا عمر قید ہو سکتی ہے۔ جرمانہ دونوں صورت میں عائد کیا جاتا ہے۔"وہیں آٹھ برس کی متاثرہ سمیرا (اصل نام نہیں) نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "ہمارے کھیتوں میں کام کرنے والے ایک غیر مقامی 34 برس کے ساحل (اصل نام نہیں) نے میرے والدین کی نا موجودگی میں مجھے ایک انوکھا پرندہ دکھانے کے بہانے باغ میں لے گیا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ ہے وہ میرے ساتھ کیا کر رہا تھا لیکن جب میں نے رات کو اپنے والد کو سب کچھ بتایا تو انہوں نے میرے چچا سے مشورہ کر کے پولیس میں شکایت درج کی۔ میرے والد کہتے ہیں کہ ساحل بہت برا آدمی ہے، پولیس نے اس کو جیل میں بند کر کے رکھا ہے اور اب وہ دوبارہ مجھے پریشان نہیں کرے گا۔"