سرینگر: عوامی نیشنل کانفرنس کے سینیئر نائب صدر مظفر شاہ نے سرکار کو متنبہ کیا کہ وہ مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کریں،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ مظفر شاہ نے اوقاف کی جانب سے تازہ فرمان پر ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا کہ ائماء کرام کو باہر نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے سوالیہ اندز میں پوچھا کیا ہمارے ایماء قابل اور اہل نہیں ہے۔ شاہ نے تاہم کہا کہ اصل میں” یہ فیصلے جموں کشمیر سے نہیں بلکہ دہلی سے صادر کیے جا رہے ہیں“۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سرکار نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ مظفر شاہ نے کہا جس طرح سے حال ہی میں جموں سے گو بیک کے نعرے بلند کیے گئے،اسی طرح وادی سے بھی آواز بلند ہوسکتی ہے“۔
مظفر شاہ نے بتایا کہ پہلی ہی جموں کشمیر کی ڈئمو گرافی تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اب وقف بورڈ کے ذریعے ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں،جو لوگوں کو قابل قبول نہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ سرکار ایسے فیصلوں سے دور رہیں،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
عوامی نیشنل کانفرنس کے سنیئر نائب صدر نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ جموں کشمیر بینک کے بجائے’ایچ ڈی ایف سی‘ بینک میں وقف بورڈ کا ایک کروڑ روپے جمع کیا گیا،جبکہ ماضی میں وقف بورڈ صرف جموں کشمیر بینک میں رقومات جمع کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا صاف نہیں جتنا نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر بینک سے سبکدوش ہوئے بیسون ملازمین کی ” لیو سیلری‘ کو بھی واگزار نہیں کیا جا رہا ہے۔
وہیں جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر نے ائمہ کی تقرری سے متعلق وقف بورڈ کے حالیہ فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقف بورڈ کے حکام کو پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں یہ احکامات دینی معاملات میں بے جا مداخلت تو نہیں ہیں۔
میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے این سی جنرل سکریٹری نے کہا کہ ہمارے یہاں مساجد ، خانقاہوں اور درگاہوں میں کئی کئی دہائیوں سے ائمہ حضرات امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ہم وقف بورڈ حکام سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اتنی دہائیوں تک یہ ائمہ حضرات شریعت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے تھے؟
انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کے فیصلے سے ائمہ حضرات، پیر حضرات اور کلامِ پاک کے حفاظ حضرات کے جذبات مجروح ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں میں ان احکامات سے متعلق بہت سار ے خدشات پائے جارہے ہیں۔وقف حکام کو اپنے احکامات کی پوری طرح وضاحت کرنی چاہئے اور اس بات کا خلاصہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ کہاں سے مفتی اور ائمہ حضرات لانا چاہتے ہیں؟
مزید پڑھیں: Altaf Bukhari on Darkshan Andrabi جموں و کشمیر وقف بورڈ کی چئیرپرسن کا بھی امتحان ہونا چاہیے، الطاف بخاری
دوسری جانب پی ڈی پی کے ترجمان اعلیٰ سید سہیل بخاری نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی ایک کوشش ہے، جس کا مقصد مساجد کے منبروں اور خانقاہوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
بخاری نے کہا کہ مساجد کے منبر ومحراب مسلمانوں کی قیادت کی نشست کے طور پر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جہاں روحانی رہنمائی اور تعلیمات دی جاتی ہیں۔انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ان مذہبی اداروں کے اندر پکڑ کو منظم کرنے اور اس پر اثر انداز ہونے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے جس سے مسلم کمیونٹی کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
پارٹی کے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے بخاری نے ایک فکر انگیز سوال اٹھایا،”اگر یہ خیال واقعی فائدہ مند ہے، تو بی جے پی اسے دوسرے مذاہب کے مذہبی مقامات کے معاملے میں کیوں نافذ نہیں کر رہی ہے؟“ ایسی جگہیں جہاں اجتماعات اشتعال انگیز بیان بازی کو فروغ دیتے ہیں، یہاں تک کہ کھلے عام ان کی وکالت کرتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس واضح متضاد فیصلے کے پیچھے حقیقی ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔انہوں نے اس فیصلے کو جموں و کشمیر کے مذہبی اداروں پر براہ راست مداخلت اور حملہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: Darakhsha Andrabi Interview جموں کشمیر وقف بورڈ کا نظم و نسق بہتر بنایا جارہا ہے، ڈاکٹر درخشاں اندرابی
انہوں نے زور دیکر کہا کہ اس طرح کی مداخلت اور مذہبی اظہار کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو خطے کے عوام برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر اس اقدام کی مزاحمت کریں جو ان کے خیال میں ان کے اداروں کی مذہبی آزادی اور خودمختاری کیلئے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ”ہم پی ڈی پی میں مذہبی آزادی، تنوع اور مذہبی اداروں کی خود مختاری کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں“۔