انہوں نے کہا کہ 'مسلمانوں کی جانب سے عدالت اعظمیٰ میں جو ثوابت پیش کیے گئے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد کے حق میں فیصلہ ہونا چاہیے تھا، تاہم سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا اس کو تسلیم کرنا چاہیے کیونکہ یہ ملک کی عظیم عدالت ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے'۔
جلیل راٹھور نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ملک میں امن اور بھائی چاہیے کو قائم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس فیصلے کا ہار یا جیت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے'۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 'اس فیصلے کے بعد مزید رنجیشیں نہ بڑھ جائیں۔ عوام ذہانت اور عقلمندی کا ثبوت پیش کر کے خندہ پیشانی سے قبول کریں اور بہتر مستقل بنانے کی کوشش کریں'۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان تعلیم اور دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ شرح خواندگی کو بڑھائیں، تاکہ ان کی معیار زندگی بڑھ جائے اور وہ ہر شعبہ میں مقابلہ کے قابل بن جائیں۔جلیل راٹھور نے کہا کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا تعلیمی مسئلہ اور ہمیں اس پر غور پر کی ضرورت ہے۔
سینیئر صحافی صوفی یوسف نے کہا کہ' اگرچہ اس فیصلے پر عدالت کے سبھی ججوں نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ صادر کیا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ' عام شہیری کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کا فیصلہ لیا گیا ہے'۔
سینیئر صحافی گوہر گیلانی نے کہا کہ کشمیر اور کشمیری سیاست اور یہاں کے مسائل سے بالکل مختلف اور برعکس ہے اور اس فیصلے پر وہاں کی ہندو اور مسلم آبادی کو آپس میں طے کرنا چاہیے کہ وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام مندر کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ حکام کی جانب سے ایودھیا معاملے کے پیش نظر ملک کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی دفعہ 144 مافذ کیا گیا ہے۔