ریڈیو کشمیر جسے گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد سے آل انڈیا ریڈیو بنایا گیا 2014 میں جب سرینگر اور دیگر اضلاع سیلاب کی زد میں آگئے تو عوام کے لئے خیر خبر معلوم کرنے کا واحد ذریعہ بن گیا تھا۔
اس وقت آل انڈیا ریڈیونے سیلاب کے دوران لوگوں کو کئی غیر محافظ مقامات سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانے میں عوام اور حکام کے درمیان ایک رابطے کا کام کیا اور آج چھ سال کے قریب بھی وہ خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
اس وقت ریڈیو کشمیر کی جو عمارت ہے مکمل طور سے سیلاب کی نظر ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ سرینگر کے دیگر چھوٹے بڑے ادارے بھی زیر آب آ گئے تھے، جس کی وجہ سے مواصلاتی نظام بھی بہت حد تک درہم برہم ہو گیا تھا اور سیلاب کے پیش نظر لوگوں میں خوف و تردد کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم اس وقت ریڈیو کشمیر سے وابستہ کئی براڈکاسٹروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اور کشتیوں میں سفر کرتے ہوئے شنکر آچاریہ پہاڈی پر ریڈیو کی نشریات کو دوبارہ شروع کیا اور ایک ایمرجنسی ہیلپ لائن قائم کر دی۔ اس دوران سیلاب میں پھنسے سینکڑوں لوگوں نے ریڈیو کا سہارا لے کر حکام تک یہ پیغام پہنچایا جس کے بعد انہیں وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ لوگ ریڈیو کے ذریعے ہی اپنوں تک اپنی خیر خبر پہنچاتے تھے اور اس طرح سے خوف و ہراس کے اس عالم میں ریڈیو کشمیر جو بعد میں آل انڈیا ریڈیو بن گیا کافی حد تک کارآمد ثابت ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: نادر قرآنی نسخہ ایک لاکھ 37 ہزار برطانوی پاؤنڈ میں فروخت
آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ کئی ملازمین نے ستمبر 2014 کے ان دونوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ یاد ماضی کے وہ دن تلخیوں سے بھرے ہیں تاہم انہیں اس بات کا فخر آج بھی حاصل ہے کہ جب کشمیر وادی سیلاب کی زد میں آ گئی تو انہوں نے عوام کی خدمت کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا سر فخر سے اونچا ہوتا ہے جب وہ اس واقعے کو یاد کرتے ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ریڈیو میں لوگوں کی دلچسپی کسی حد تک کم ہوتی جا رہی ہے تاہم ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کے ساتھ ساتھ مصیبتوں کے ادوار میں ریڈیو کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔