کورونا ووائرس کی موجودہ بحرانی صورتحال سے جہاں عوام پہلے ہی خوف اور اضطراب میں مبتلا ہیں وہیں، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے غریب اور متواسط طبقے کے لوگوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
گذشتہ چند ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ سرینگر میں اس وقت پٹرول کی قیمت 97.92 پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت 89.31 پیسے فی لیٹر ہے۔ اسی طرح بازاروں میں دیگر روزمرہ کی ضرویات کی چیزوں کے علاوہ کھانے کے تیل کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران خوردنی تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کیا گیا ہے۔
امسال لاک ڈاؤن سے قبل پندرہ کلو والے تیل کے ڈبے کی قیمت 2000 روپے تھی۔ بازاروں میں تیل کی قیمت اس وقت 2800 ہے۔ جبکہ پانچ کلو تیل کا ڈبہ 700 سے میں دستیاب تھا۔ اب یہ 900 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ وبا کی آڑ میں مہنگائی کی روک تھام کے لیے متعلقہ محکمہ کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا ہے۔
دیگر اشیاء ضروریہ کے علاوہ روزمرہ استعمال میں لائی جانی والی سبزیوں اور میوہ جات کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ مختلف سبزیاں اور میوے 20 سے 30 روپے مہنگے فروخت ہورہے ہیں۔ جبکہ دالیں، مصالحہ جات، آٹا اور چائے پتی وغیرہ کی قیمتیوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ متعدد لوگ وبا کے اس دور میں بے کاری اور بے روزگاری کی مار پہلے ہی جھیل رہے ہیں۔ اس بیچ اب کمر توڑ مہنگائی مزدور اور غریب طبقے کے لوگوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنارہی ہے۔
ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کے سلسلے میں دریافت کرنے پر کوئی بھی ہول سیل تاجر یہ بتانے سے قاصر ہے کہ قمتیں آسمان چھونے کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ تاہم دکاندار اور پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والے اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی خرید و فروخت پر کافی اثر پڑا ہے۔
قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کے ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے تو کئے جارہے ہیں لیکن زمینی سطح پر اس کے خاطر خواہ نتائج دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں۔