ETV Bharat / state

عالمی پریس فریڈم ڈے: 'کشمیر میں صحافت دو دھاری تلوار'

گوہر گیلانی نے کہا 'سماج کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب وہاں بحث کی گنجائش ہو- وہاں علم، دانش اور منطق کی بنیاد پر بحث ہو تاکہ ایک دوسرے سے سیکھنے کا موقع ملے-'

Press Freedom Day: Kashmiri journalists walking line of fire
عالمی پریس فریڈم ڈے: 'کشمیر میں صحافت دو دھاری تلوار'
author img

By

Published : May 3, 2020, 9:04 PM IST

دنیا بھر میں آج عالمی یوم صحافت منایا جا رہا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد چلے آرہے ناسازگار حالات کے دوران صحافیوں نے اپنا فرض پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دے کر حالات کی حقیقی عکاسی کی ہے۔
لیکن اس کام کو بخوبی انجام دینے میں صحافیوں کو کئی پر خطر مرحلوں کے بیچ گزرنا پڑا ہے اور آج بھی گزر رہے ہیں-
صحافی گزشتہ تین دہائیوں سے دو دھاری تلوار پر چلتے آئے ہیں- سنہ 1990 سے صحافت پر کافی دباؤ اور جلینج درپیش ہے، چاہے وہ سیکورٹی، عسکری یا سیاسی ہو، صحافی کشمیر میں عدم تحفط کے سائے کام کرتے آرہے ہیں-

عالمی پریس فریڈم ڈے: 'کشمیر میں صحافت دو دھاری تلوار'
اس عدم تحفط کا اندازہ اس بات سے عیاں ہے کہ گزشتہ دنوں کشمیر میں پولیس نے دو صحافیوں- گوہر گیلانی اور خاتون صحافی مسرت زہرہ کے خلف مقدمے درج کیے جبکہ 'دی ہندو' کے جموں و کشمیر کے نمایندے پیرزادہ عاشق کو ایک خبر رپورٹ کرنے پر پولیس نے پوچھ تاچ کی اور رپورٹ پر مقدمہ درج کیا-اس سے قبل گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی کے کئ صحافیوں کو پولیس نے رپورٹ شایع کرنے پر پولیس تھانون بلا کر پوچھ تاچھ کی، جن میں اوٹلوک میگزین کے سینئر صحافی نصیر گنائی، دی ہندو کے پیرزادہ عاشق، دی انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور ایکنامک ٹایمز کے حکیم عرفان قابل ذکر ہے- وہیں اسی دوران نو عمر صحافی اذان جاوید اور انیس زرگر کے ساتھ پولیس نے دن دھاڑے شہر خاص میں رپورٹنگ کے دوران مار پیٹ کی-لیکن یہ واقعات کشمیر کی صحافت میں نیے نہیں ہیں- سنہ 1990 سے ہی صحافیوں پر عسکریت پسندوں یا سیکورٹی اہلکاروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے-سنہ 2008 سے کشمیر میں عوامی احتجاجوں کا ایک نیا باب شروع ہوا، اور اسی کے ساتھ کشمیر میں درجنوں ایسے واقعات پیش آیے جب صحافیوں کو ہراساں کیا گیا-کشمیر میں آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی جلیل راتھور کا کہنا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کو وہ آزادی میسر نہیں جو دنیا کے مختلف مقامات میں ہیں-انکے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت اور صحافت کے ترجیحات بدل گیے ہے-انکا کہنا تھا کہ کشمیر میں صحافت کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے اور یہاں صحافیوں کو ہر وقت ہمت اور حوصلے کے ساتھ کام انجام دینا پڑ رہا ہے-انکا کہنا تھا کہ اگر واقعی صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے تو لوگوں کو بھی جمہوریت کو پنپتے دینا چاہیے اور صحافت کی آزادی مییسر رکنھی چاہیے-مصنف اور سینئر صحافی گوہر گیلانی نے بتایا کہ اگر سماج یا قوموں کی حقیقی ارتقاء دیکھنی ہو تو آزادی صحافت یا آزادی رائے میں جتنی آراء ہوں وہ اسکے ارتقاء کیلئے معنیٰ خیز ثابت ہو گی-انہوں نے کہا 'سماج کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب وہاں بحث کی گنجائش ہو- وہاں علم، دانش اور منطق کی بنیاد پر بحث ہو تاکہ ایک دوسرے سے سیکھے- اگر یہ نہ ہوگا تو سماج میں بے چینی، آمریت کی بو آتی ہے-'آزادی صحافت نہ ہونے پر پر تشبیہ دیتے ہوئے انہون نے کہا باغ کبھی ایک پھول سے خوب صورت نہیں ہوتا-

دنیا بھر میں آج عالمی یوم صحافت منایا جا رہا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے زائد چلے آرہے ناسازگار حالات کے دوران صحافیوں نے اپنا فرض پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دے کر حالات کی حقیقی عکاسی کی ہے۔
لیکن اس کام کو بخوبی انجام دینے میں صحافیوں کو کئی پر خطر مرحلوں کے بیچ گزرنا پڑا ہے اور آج بھی گزر رہے ہیں-
صحافی گزشتہ تین دہائیوں سے دو دھاری تلوار پر چلتے آئے ہیں- سنہ 1990 سے صحافت پر کافی دباؤ اور جلینج درپیش ہے، چاہے وہ سیکورٹی، عسکری یا سیاسی ہو، صحافی کشمیر میں عدم تحفط کے سائے کام کرتے آرہے ہیں-

عالمی پریس فریڈم ڈے: 'کشمیر میں صحافت دو دھاری تلوار'
اس عدم تحفط کا اندازہ اس بات سے عیاں ہے کہ گزشتہ دنوں کشمیر میں پولیس نے دو صحافیوں- گوہر گیلانی اور خاتون صحافی مسرت زہرہ کے خلف مقدمے درج کیے جبکہ 'دی ہندو' کے جموں و کشمیر کے نمایندے پیرزادہ عاشق کو ایک خبر رپورٹ کرنے پر پولیس نے پوچھ تاچ کی اور رپورٹ پر مقدمہ درج کیا-اس سے قبل گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد وادی کے کئ صحافیوں کو پولیس نے رپورٹ شایع کرنے پر پولیس تھانون بلا کر پوچھ تاچھ کی، جن میں اوٹلوک میگزین کے سینئر صحافی نصیر گنائی، دی ہندو کے پیرزادہ عاشق، دی انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور ایکنامک ٹایمز کے حکیم عرفان قابل ذکر ہے- وہیں اسی دوران نو عمر صحافی اذان جاوید اور انیس زرگر کے ساتھ پولیس نے دن دھاڑے شہر خاص میں رپورٹنگ کے دوران مار پیٹ کی-لیکن یہ واقعات کشمیر کی صحافت میں نیے نہیں ہیں- سنہ 1990 سے ہی صحافیوں پر عسکریت پسندوں یا سیکورٹی اہلکاروں کی طرف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے-سنہ 2008 سے کشمیر میں عوامی احتجاجوں کا ایک نیا باب شروع ہوا، اور اسی کے ساتھ کشمیر میں درجنوں ایسے واقعات پیش آیے جب صحافیوں کو ہراساں کیا گیا-کشمیر میں آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے سینئر صحافی جلیل راتھور کا کہنا ہے کہ کشمیر میں صحافیوں کو وہ آزادی میسر نہیں جو دنیا کے مختلف مقامات میں ہیں-انکے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت اور صحافت کے ترجیحات بدل گیے ہے-انکا کہنا تھا کہ کشمیر میں صحافت کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے اور یہاں صحافیوں کو ہر وقت ہمت اور حوصلے کے ساتھ کام انجام دینا پڑ رہا ہے-انکا کہنا تھا کہ اگر واقعی صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے تو لوگوں کو بھی جمہوریت کو پنپتے دینا چاہیے اور صحافت کی آزادی مییسر رکنھی چاہیے-مصنف اور سینئر صحافی گوہر گیلانی نے بتایا کہ اگر سماج یا قوموں کی حقیقی ارتقاء دیکھنی ہو تو آزادی صحافت یا آزادی رائے میں جتنی آراء ہوں وہ اسکے ارتقاء کیلئے معنیٰ خیز ثابت ہو گی-انہوں نے کہا 'سماج کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب وہاں بحث کی گنجائش ہو- وہاں علم، دانش اور منطق کی بنیاد پر بحث ہو تاکہ ایک دوسرے سے سیکھے- اگر یہ نہ ہوگا تو سماج میں بے چینی، آمریت کی بو آتی ہے-'آزادی صحافت نہ ہونے پر پر تشبیہ دیتے ہوئے انہون نے کہا باغ کبھی ایک پھول سے خوب صورت نہیں ہوتا-
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.