جولائی 18 کو صدر ہند منتخب کرنے کے لیے انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے جس میں تمام ریاستوں اور یونین ٹریٹریز حصہ لینے والے ہیں، لیکن جموں و کشمیر اس انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا J&K Miss Participation Presidential Polls۔ یہ سنہ 1990 کے بعد دوسری مرتبہ ہے جب جموں و کشمیر میں اسمبلی تحلیل ہونے کی وجہ سے صدراتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکا۔ سنہ 1990 سے 1996 تک حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے یہاں گورنر راج نافذ رہا۔ Presidential Polls J&K to Miss Participation Second Time
جموں و کشمیر میں 19 جولائی سنہ 2018 سے منتخب سرکار نہ ہونے کے وجہ سے یہاں کوئی ایم ایل اے ہی نہیں ہے۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے تین رکن پارلیمان فاروق عبداللہ، حسین مسعودی اور اکبر لون صدر انتخابات کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ 19 جولائی سنہ 2018 کو بی جے پی نے پی ڈی پی کو حمایت واپس لی تھی اور مخلوط سرکار کو الوداع کہہ دیا تھا، اس وقت پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ریاست کی وزیر اعلیٰ تھیں۔
سنہ 2018 سے یہاں صدر راج نافظ ہے، جب کہ 5 اگست سنہ 2019 کے بعد بی جے پی سرکار نے ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرکے یہاں لیفٹیننٹ گورنر تعینات کیا ہے۔ سابق ریاست جموں و کشمیر میں 87 منتخب ارکان اور پانچ ممبر پارلیمان صدر کے لیے ووٹ ڈالتے تھے۔ جموں و کشمیر میں یہ روایت رہی ہے کہ صدراتی انتخابات کے لیے منتخب حکومت کے ایم ایل ایز مرکز میں بر سر اقتدار پارٹی کے صدر امیدوار کو ہی ووٹ ڈالتے تھے اور حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے امیدوار کی حمایت کرتے تھے۔واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کے لیے الیکٹورل کالج ارکان پارلیمان (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ فی الوقت اراکین لوک سبھا کی کل تعدا 543 اور راجیہ سبھا کی کل تعداد 233 ہے۔ جب کہ ایم ایل ایز کی تعداد 4120 ہے۔ ہر رکن کے ووٹ کی قدر 708 ہے، تاہم آنے والے انتخابات میں ووٹ کی قدر 700 ہوگی کیونکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی نہ ہونے سے ووٹ کی قدر کم ہوئی ہے۔
ان انتخابات میں الیکٹورل کالج میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ووٹوں کی کل قدر 5 لاکھ 49 ہزار 408 ہے۔ تمام ریاستوں کے قانون ساز ارکان کے ووٹوں کی قدر 5 لاکھ 49 ہزار 495 ہے جس سے کل ووٹوں کی قدر 10 لاکھ 98 ہزار 903 بنتی ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے لیے پچاس فیصد سے زائد ووٹ امیدوار کو حاصل کرنا لازمی ہے۔
گوکہ جموں و کشمیر میں اسمبلی نہ ہونے کی وجہ سے 6264 ووٹ کم ہوجائیں گے۔ صدر امیدوار کو کامیابی کے لیے 5 لاکھ 46 ہزار 320 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔واضح رہے کہ موجودہ صدر رام ناتھ کوند کی معیاد 24 جولائی کو ختم ہورہی ہے اور 25 جولائی کو نیا منتخب صدر ہوگا۔نیشنل کانفرنس کے تین ارکان پارلیمان کس امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے اس سوال پر رکن پارلیمان حسین مسعودی نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ اس کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔ این سی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے رابطہ نہیں ہوپایا تاہم انہوں جمعرات کو ایک مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ نیشنل کانفرنس نے ابھی تک صدر انتخابات پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ حزب اختلاف جماعتیں صدر انتخابات کے متعلق جب میٹنگ طلب کریں گے اس کے بعد این سی فیصلہ لے گی۔مزید پڑھیں: