ٹیکنالوجی کی دنیا میں آنے والے انقلاب کے سبب دوسرے خطوں کی طرح وادی میں بھی کتب بینی محض لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک ہی محدود ہو گئی تھی، انٹرنیٹ بند ہونے کے باعث نوجوان کتب بینی کی طرف سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔
سرینگر میں 'گلشن بکس ' اور ' بیسٹ سیلرس' نامی دونوں بک ڈپوز میں ان دنوں کشمیر کے گرد و نواح سے لوگ آتے ہیں اور اپنی من پسند کتابیں خریدتے ہیں۔
زبیر قریشی نامی ایک صحافی کہتے ہیں کہ 'انٹرنیٹ کی عدم دستیابی اگرچہ بہت حد تک نقصان دہ ثابت ہوئی لیکن اس دوران کتب بینی کا شوق کشمیری نوجوانوں میں دوبارہ بیدار ہونے لگا ہے۔'
سرینگر کے قلب لال چوک میں گھنٹہ گھر کے نزدیک "بیسٹ سیلر بک اسٹور" کی جانب سے ہر اتوار کو ایک بک اسٹال لگائی جاتی ہے اور سینکٹروں کتابیں فروخت ہو جاتی ہیں۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ اور تفریح کے محدود ذرائع کے باعث نوجوان طبقہ ادبی کتابوں کا مطالعہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں گذشتہ برس 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں منقسم کرنے سے چند گھنٹے قبل انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی خدمات معطل کر دیے گئے تھے۔
فی الحال اگرچہ مواصلاتی رابطوں اور انٹرنیٹ کی 2 جی خدمات کو بحال کیا گیا ہے، لیکن محض 400 کے قریب 'وائٹ لسٹڈ' ویب سائٹز تک ہی رسائی محدود ہے۔