سرینگر کے نشاط علاقے کے رہنے والے ظہور احمد میر کے والد علی محمد میر کو پاپا کشتواڑی نے 26 جون سنہ 1996 کو ہلاک کیا تھا اور تب سے وہ انصاف کے لیے در در بھٹک رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 'پاپا کشتواڑی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 236 بے گناہ شہریوں کا قتل کیا۔ ان کا جرم ثابت ہوچکا تھا اس لیے وہ گزشتہ 13 برسوں سے زیرحراست تھے۔ ان کے دو اور ساتھی بھی جیل میں ہیں۔ معاملہ اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے اور مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان سب کو پھانسی کی سزا ملے گی۔'
بدنام زمانہ اخوانی پاپا کشتواڑی کی پولیس اسپتال میں موت
اپنے والد کی ہلاکت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میرے والد ایک ٹھیکیدار تھے اور اس رات وہ دوا لانے کے لیے بازار گئے تھے اور پاپا کشتواڑی نے انہیں اغوا کرکے ہلاک کر دیا۔ وہ میرے والد سے تین لاکھ روپیے مانگ رہے تھے جسے دینے سے میرے والد نے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ والد کی رہائی کے لیے اس نے مجھ سے بھی ڈیڑھ لاکھ روپے لیے۔ پانپور میں اس نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔ مجھ پر بھی قاتلانہ حملے کیے گئے لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری اور انصاف کی جنگ لڑتا رہا'۔
ظہور احمد نے بتایا 'سنہ 2007 تک پاپا کشتواڑی کو سرکار کا ساتھ ملتا رہا تاہم اس کے بعد جب ثبوت سامنے آئے اور عدالت عالیہ کی نگرانی میں معاملے کی تحقیقات ہوئی تو دو ساتھیوں سمیت اسے گرفتار کر لیا گیا۔ جیل میں رہ کر چار بار اس نے ضمانت کے لیے عرضی دائر کی تاہم عدالت نے عرضیوں کو مسترد کر دیا۔ مجھے انصاف اس وقت ملے گا جب میرے والد اور دیگر معصوم لوگوں کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا ہوگی'۔
واضح رہے کہ پاپا کشتواڑی کا سرینگر کے پولیس کنٹرول روم ہسپتال میں حرکت قلب بند ہو جانے سے موت ہوگئی۔ انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ غلام محمد لون عرف پاپا کشتواڑی 1990 کی دہائی کے وسط میں ملیٹنسی مخالف بندوق برداروں کی تنظیم اخوان المسلون کا اہم لیڈر تھا جسے اس وقت کی گورنر انتظامیہ اور سرکاری فورسز کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ایک نیم فوجی فورس سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ جنوبی کشمیر کے پانپور قصبے میں واقع جوائنری ملز میں بحیثیت محافظ تعینات ہوا تھا لیکن عسکریت مخالف تنظیموں کے معرض وجود میں آنے کے بعد وہ اخوان میں شامل ہوا اور اپنی ایک ملیشیا قائم کی۔