جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق عسکریت پسندوں کی بیویوں نے منگل کے روز سرینگر پریس کالونی میں اپنے مطالبات خاص طور پر سفری دستاویز کی فراہمی کے حق میں ایک بار پھر احتجاج کیا۔
احتجاجی خواتین نے پریس کالونی سے تاریخی گھنٹہ گھر تک احتجاجی مارچ بھی کیا۔ احتجاجیوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے اور احتجاجی جم کر نعرہ بازی بھی کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ہمیں تسلیم نہیں کرتی ہے تو ہمیں پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔
اس موقع پر سائرہ نامی ایک احتجاجی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمارے مسائل کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا: 'ہم بار بار اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج درج کر رہے ہیں لیکن حکومت توجہ نہیں دے رہی ہے۔ ہم آخری سانس تک اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے رہیں گے۔'
سائرہ نے کہا کہ اگر حکومت ہمیں تسلیم نہیں کرتی ہے تو ہمیں پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔
انہوں نے کہا: 'پاکستانی خواتین نے ان کشمیریوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں جو قانونی طور پر یہاں کے شہری ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ ہمیں بھی شہری کے بطور تسلیم کریں۔'
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کشمیریوں کے ساتھ شادیاں کر کے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور جس طرح کشمیری بھارت کے شہری ہیں، اسی طرح ہم بھی ہندوستان کے شہری ہیں۔
موصوفہ نے کہا کہ جب حکومت عدنان سمیع جو بالی ووڈ کا پاکستانی گلو کار ہے، کو شہریت دے سکتی ہے تو ہمیں کیوں نہیں دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم اکیلے نہیں بلکہ ہمارے بچے بھی ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ ہمیں اپنے ملک کے شہری تسلیم کرے۔
موصوفہ نے کہا کہ ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے پاکستانی کرکٹر کے ساتھ شادی کی اور وہ پاکستان کی شہری بن گئیں لیکن وہ ابھی بھی بھارت کی ہی نمائندگی کر رہی ہیں۔
ان کا الزام تھا کہ حکومت ان کے ساتھ عسکریت پسندوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کر رہی ہے۔ ایک اور احتجاجی نے کہا کہ ہم بارہ چودہ برسوں سے اپنے حقوق کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کئی خواتین بیوہ ہوئی ہیں اور کئی خواتین کی طلاق ہوئی ہے لیکن ان کو دیکھنے کے لئے سرکار کی طرف سے کوئی نہیں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جب ڈی ڈی سی ممبر بن سکتی ہیں، پنچ بن سکتی ہیں تو ہمیں شہریت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2010 میں عمر عبداللہ کے دور حکومت میں عسکریت پسندوں کی بازآباد کاری پالیسی کے تحت قریب ساڑھے چار سو کشمیری جو اسلحہ کی تربیت کے لیے سرحد پار کر گئے تھے، اپنی بیویوں کے ساتھ واپس وادی کشمیر آئے۔