ETV Bharat / state

کشمیر: نظر بند سیاسی رہنماؤں میں بی جے پی سے کتنے ہیں؟

جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی 177 سیاستدانوں کو گرفتار کیا گیا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو
author img

By

Published : Nov 28, 2019, 6:10 PM IST

نریندر مودی حکومت نے 5 اگست کو دفعہ 370 کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔ اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل سینکٹروں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان گرفتار شدگان میں سے بیشتر ابھی تک رہا نہیں کئے گئے ہیں۔ اکثر گرفتار لیڈروں کے خلاف مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تقریباً 177 ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا۔ نظر بند سیاسی رہنماؤں میں سے سب سے زیادہ یعنی 71 افراد کا تعلق فاروق عبداللہ کی قیادت والی جماعت نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہے۔ حیرت انگیز طور پر گرفتار شدگان میں سے ایک کارکن کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ ہے۔ بی جے پی کا یہ کارکن شمالی کشمیر کے سوپور عالقے کا باشندہ ہے۔

بی جے پی کی سابق حلیف جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے 35 سیاستدانوں کو نظر بند کردیا گیا ہے جن میں سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی سابق وزرا اور اراکین قانون سازیہ بھی شامل ہیں۔ کانگریس کے 28 سیاسی رہنما جبکہ سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل کی پارٹی جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کے 28 رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سجاد غنی لون جنہیں نریندر مودی کا قریبی مانا جاتا تھا، کی پارٹی پیپلز کانفرنس کے 10 رہنما نظر بند ہیں، جبکہ انجینئر رشید کی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی سے 8 رہنما رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا جن میں خود انجینیئر رشید بھی شامل ہیں۔ انہیں این آئی اے نے حراست میں لیکر دلی منتقل کیا ہے۔ سجاد لون کی پارٹی علیحدگی پسند سیاست میں یقین رکھتی تھی لیکن 2014 میں انہون نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرکے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ مودی کو اپنا بڑا بھائی کہتے تھے۔

ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق 30 ستمبر تک 4844 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں سے 4062 افراد پتھر بازی میں ملوث ہیں، 156 لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین عسکریت پسند تنظیموں کے معاون، جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس کے 117 رضا کار اور کارکنان، 118 رہا شدہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

زیادہ تر گرفتاریاں ضلع بانڈی پورہ سے کی گئی ہیں، بانڈی پورہ کے بعد سرینگر، کپوارہ اور گاندربل سے سب سے زیادہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 746 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو ابھی بھی جیلوں میں ہیں۔
پانچ اگست اور 30 اکتوبر کے درمیان 235 قیدیوں کو ملک کی دوسری ریاستوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ آٹھ اگست کو 26 قیدیوں کو آگرہ کے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا ہے۔
گیارہ اگست سے 21 اگست کے درمیان 46 قیدیوں کو نینی، پریاگ راج، وارانسی اور امبیڈ کر نگر کے جیلوں میں منتقل کیا گیا، جبکہ 3 اور 5 ستمبر کے درمیان 30 قیدیوں کو امبیڈکر نگر اور آگرہ سینٹرل جیل منتقل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مرکز نے 5 اگست کو دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔
بی جے پی حکومت نے دفعہ 370 کو جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور انکے مطابق اس کے ہٹانے سے جموں و کشمیر اور لداخ میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

نریندر مودی حکومت نے 5 اگست کو دفعہ 370 کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔ اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل سینکٹروں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ تین ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان گرفتار شدگان میں سے بیشتر ابھی تک رہا نہیں کئے گئے ہیں۔ اکثر گرفتار لیڈروں کے خلاف مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تقریباً 177 ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا۔ نظر بند سیاسی رہنماؤں میں سے سب سے زیادہ یعنی 71 افراد کا تعلق فاروق عبداللہ کی قیادت والی جماعت نیشنل کانفرنس کے ساتھ ہے۔ حیرت انگیز طور پر گرفتار شدگان میں سے ایک کارکن کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ ہے۔ بی جے پی کا یہ کارکن شمالی کشمیر کے سوپور عالقے کا باشندہ ہے۔

بی جے پی کی سابق حلیف جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے 35 سیاستدانوں کو نظر بند کردیا گیا ہے جن میں سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی سابق وزرا اور اراکین قانون سازیہ بھی شامل ہیں۔ کانگریس کے 28 سیاسی رہنما جبکہ سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل کی پارٹی جموں و کشمیر پیپلز مومنٹ کے 28 رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

سجاد غنی لون جنہیں نریندر مودی کا قریبی مانا جاتا تھا، کی پارٹی پیپلز کانفرنس کے 10 رہنما نظر بند ہیں، جبکہ انجینئر رشید کی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی سے 8 رہنما رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا جن میں خود انجینیئر رشید بھی شامل ہیں۔ انہیں این آئی اے نے حراست میں لیکر دلی منتقل کیا ہے۔ سجاد لون کی پارٹی علیحدگی پسند سیاست میں یقین رکھتی تھی لیکن 2014 میں انہون نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرکے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ مودی کو اپنا بڑا بھائی کہتے تھے۔

ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق 30 ستمبر تک 4844 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں سے 4062 افراد پتھر بازی میں ملوث ہیں، 156 لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین عسکریت پسند تنظیموں کے معاون، جماعت اسلامی اور حریت کانفرنس کے 117 رضا کار اور کارکنان، 118 رہا شدہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

زیادہ تر گرفتاریاں ضلع بانڈی پورہ سے کی گئی ہیں، بانڈی پورہ کے بعد سرینگر، کپوارہ اور گاندربل سے سب سے زیادہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت 746 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو ابھی بھی جیلوں میں ہیں۔
پانچ اگست اور 30 اکتوبر کے درمیان 235 قیدیوں کو ملک کی دوسری ریاستوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ آٹھ اگست کو 26 قیدیوں کو آگرہ کے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا ہے۔
گیارہ اگست سے 21 اگست کے درمیان 46 قیدیوں کو نینی، پریاگ راج، وارانسی اور امبیڈ کر نگر کے جیلوں میں منتقل کیا گیا، جبکہ 3 اور 5 ستمبر کے درمیان 30 قیدیوں کو امبیڈکر نگر اور آگرہ سینٹرل جیل منتقل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مرکز نے 5 اگست کو دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا۔
بی جے پی حکومت نے دفعہ 370 کو جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور انکے مطابق اس کے ہٹانے سے جموں و کشمیر اور لداخ میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.