ETV Bharat / state

NIA Raids In JK جماعت اسلامی ارکان کے گھروں اور دفاتر میں چھاپے، این آئی اے کا بیان

قومی تحقیقاتی ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ممنوعہ جماعت اسلامی کے ارکان فلاحی کاموں کیلئے مقامی طور اور بین الاقوامی سطح پر رقومات جمع کررہے تھے، جنہیں بعد میں عسکریت پسندوں کی اعانت کیلئے بھی استعمال کیا جارہا تھا۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : May 4, 2023, 8:07 PM IST

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے خلاف دائر کئے گئے ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں آج کشمیر کے بارہمولہ اور جموں کے کشتواڑ ضلع میں سولہ مقامات پر چھاپے مارے۔ این آئی اے کے ایک ترجمان کے مطابق ان چھاپوں میں قابل اعتراض مواد بشمول الیکٹرانک آلات ضبط کئے گئے۔

جماعت اسلامی پر حکام نے چار سال قبل پابندی عائد کی ہے اور اس کے اکثر لیڈروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ اگست 2019 میں جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی گئی تو جماعت اسلامی کے اکثر دفاتر کو سربمہر کردیا گیا اور اس تنظیم کے سبھی چوٹی کے لیڈر گرفتار کئے گئے۔ جماعت اسلامی کے زیرانتظام فلاح عام ٹرسٹ کے اسکولس کو بھی بند کردیا گیا۔ این آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق ایکٹ کے تحت اگرچہ جماعت اسلامی پر 28 فروری 2019 کے روز پابندی عائد کی گئی تھی تاہم بعد میں یہ تنظیم پابندی کے باوجود "ٹیرر فنڈنگ" کی سرگرمیوں میں ملوث رہی۔ اس سلسلے میں این آئی اے نے پٹیالہ ہاؤس کی خصوصی عدالت میں درج ایک معاملے میں چارج شیٹ پیش کی۔ اس سے قبل عدالت نے 5 فروری 2021 کو اس معاملے میں سوموٹو کیس درج کیا تھا۔

کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں جمعرات کو جماعت اسلامی کے متعدد ارکان و حامیوں کے گھروں اور دفاتر (16 مقامات) پر تلاشی لی گئی، جن میں وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں 11 اور جموں خطے کے ضلع کشتواڑ میں باقی 5 مقامات شامل ہیں۔ تلاشی کے دوران قابل اعتراض مواد اور ڈیجیٹل آلات ضبط کیے گئے اور کیس میں مزید سراغ حاصل کرنے کے لیے ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ کیس کی اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جماعت کے اراکین اندرون ملک اور بیرون ملک سے عطیات کے ذریعے، خاص طور پر زکوٰۃ، موعودہ اور بیت المال کی شکل میں رقومات جمع کررہے تھے۔ یہ رقومات خیراتی مقاصد کے لیے، جیسے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں فلاحی کاموں کیلئے جمع کی جاتی تھیں لیکن این آئی اے کے مطابق اس کے بجائے یہ فنڈز جموں و کشمیر میں پُرتشدد اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے یہ رقومات لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے کارکنوں تک جماعت اسلامی کے منظم نیٹ ورک کے ذریعے پہنچائی جاتی تھیں۔

این آئی اے کے مطابق تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی، کشمیر کے نوجوانوں کو علیحدگی پسندی کی جانب راغب کرنے اور انہیں امن عامہ میں خلل ڈالنے کیلئے بھی ارکان کو بھرتی کرنے میں مصروف تھی۔ این آئی اے کی سابقہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گرفتار کیے گئے چار ملزمان میں سے ایک، جس کی شناخت جاوید احمد لون کے طور پر کی گئی ہے، جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے نام پر فنڈز مانگ رہا تھا اور میٹنگیں منعقد کر رہا تھا۔ وہ نفرت انگیز بھارت مخالف تقاریر کرتے رہے اور لوگوں کو ان جلسوں میں چندہ دینے کی تلقین کرتے رہے۔ عادل احمد لون کے ساتھ، اس نے دیگر دو ملزمان، جن کی شناخت منظور احمد ڈار اور رمیز احمد کوندو کے طور کی گئی ہے، سے آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود بھی حاصل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: Terror Funding Case این آئی اے کی جانب سے جموں و کشمیر میں 16 مقامات پر چھاپے ماری

واضح رہے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی قدیم سیاسی و سماجی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1951 میں ڈالی گئی ہے۔ نوے کی دہائی میں جموں و کشمیر میں مسلح شورش برپا ہونے سے قبل جماعت اسلامی ہند نواز انتخابی عمل کا حصہ رہی ہے اور متعدد مواقع پر جماعت اسلامی کے کئی ارکان ریاستی اسمبلی کیلئے منتخب بھی ہوئے ہیں۔ ایک وقت اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پانچ ممبران رہے ہیں جبکہ جماعت کے سرکردہ لیڈر مرحوم سید علی شاہ گیلانی متعدد بار شمالی کشمیر کے سوپور حلقہ انتخاب سے الیکشن جیت گئے ہیں۔ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی ، مسلم متحدہ محاذ کی اہم ترین اکائی تھی ۔ ان انتخابات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں بھاری پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں اور اسی کے دو سال بعد کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کی بنیادی وجہ مانا جارہا ہے۔

کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے علیحدگی پسند خیمہ جوائن کیا اور الیکشن سیاست سے نہ صرف دوری اختیار کی بلکہ اس کے خلاف ایک مہم بھی شروع کی۔ جماعت اسلامی پر ماضی میں بھی کئی بار پابندی عائد کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک طویل رپورٹ پیش کی تھی۔

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے نے کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے خلاف دائر کئے گئے ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں آج کشمیر کے بارہمولہ اور جموں کے کشتواڑ ضلع میں سولہ مقامات پر چھاپے مارے۔ این آئی اے کے ایک ترجمان کے مطابق ان چھاپوں میں قابل اعتراض مواد بشمول الیکٹرانک آلات ضبط کئے گئے۔

جماعت اسلامی پر حکام نے چار سال قبل پابندی عائد کی ہے اور اس کے اکثر لیڈروں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ اگست 2019 میں جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی گئی تو جماعت اسلامی کے اکثر دفاتر کو سربمہر کردیا گیا اور اس تنظیم کے سبھی چوٹی کے لیڈر گرفتار کئے گئے۔ جماعت اسلامی کے زیرانتظام فلاح عام ٹرسٹ کے اسکولس کو بھی بند کردیا گیا۔ این آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق ایکٹ کے تحت اگرچہ جماعت اسلامی پر 28 فروری 2019 کے روز پابندی عائد کی گئی تھی تاہم بعد میں یہ تنظیم پابندی کے باوجود "ٹیرر فنڈنگ" کی سرگرمیوں میں ملوث رہی۔ اس سلسلے میں این آئی اے نے پٹیالہ ہاؤس کی خصوصی عدالت میں درج ایک معاملے میں چارج شیٹ پیش کی۔ اس سے قبل عدالت نے 5 فروری 2021 کو اس معاملے میں سوموٹو کیس درج کیا تھا۔

کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں جمعرات کو جماعت اسلامی کے متعدد ارکان و حامیوں کے گھروں اور دفاتر (16 مقامات) پر تلاشی لی گئی، جن میں وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں 11 اور جموں خطے کے ضلع کشتواڑ میں باقی 5 مقامات شامل ہیں۔ تلاشی کے دوران قابل اعتراض مواد اور ڈیجیٹل آلات ضبط کیے گئے اور کیس میں مزید سراغ حاصل کرنے کے لیے ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ کیس کی اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جماعت کے اراکین اندرون ملک اور بیرون ملک سے عطیات کے ذریعے، خاص طور پر زکوٰۃ، موعودہ اور بیت المال کی شکل میں رقومات جمع کررہے تھے۔ یہ رقومات خیراتی مقاصد کے لیے، جیسے کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں فلاحی کاموں کیلئے جمع کی جاتی تھیں لیکن این آئی اے کے مطابق اس کے بجائے یہ فنڈز جموں و کشمیر میں پُرتشدد اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ این آئی اے نے دعوی کیا ہے یہ رقومات لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے کارکنوں تک جماعت اسلامی کے منظم نیٹ ورک کے ذریعے پہنچائی جاتی تھیں۔

این آئی اے کے مطابق تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی، کشمیر کے نوجوانوں کو علیحدگی پسندی کی جانب راغب کرنے اور انہیں امن عامہ میں خلل ڈالنے کیلئے بھی ارکان کو بھرتی کرنے میں مصروف تھی۔ این آئی اے کی سابقہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گرفتار کیے گئے چار ملزمان میں سے ایک، جس کی شناخت جاوید احمد لون کے طور پر کی گئی ہے، جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے نام پر فنڈز مانگ رہا تھا اور میٹنگیں منعقد کر رہا تھا۔ وہ نفرت انگیز بھارت مخالف تقاریر کرتے رہے اور لوگوں کو ان جلسوں میں چندہ دینے کی تلقین کرتے رہے۔ عادل احمد لون کے ساتھ، اس نے دیگر دو ملزمان، جن کی شناخت منظور احمد ڈار اور رمیز احمد کوندو کے طور کی گئی ہے، سے آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود بھی حاصل کیا تھا۔

مزید پڑھیں: Terror Funding Case این آئی اے کی جانب سے جموں و کشمیر میں 16 مقامات پر چھاپے ماری

واضح رہے کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی قدیم سیاسی و سماجی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1951 میں ڈالی گئی ہے۔ نوے کی دہائی میں جموں و کشمیر میں مسلح شورش برپا ہونے سے قبل جماعت اسلامی ہند نواز انتخابی عمل کا حصہ رہی ہے اور متعدد مواقع پر جماعت اسلامی کے کئی ارکان ریاستی اسمبلی کیلئے منتخب بھی ہوئے ہیں۔ ایک وقت اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پانچ ممبران رہے ہیں جبکہ جماعت کے سرکردہ لیڈر مرحوم سید علی شاہ گیلانی متعدد بار شمالی کشمیر کے سوپور حلقہ انتخاب سے الیکشن جیت گئے ہیں۔ 1987 کے اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی ، مسلم متحدہ محاذ کی اہم ترین اکائی تھی ۔ ان انتخابات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان میں بھاری پیمانے پر دھاندلیاں کی گئیں اور اسی کے دو سال بعد کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کی بنیادی وجہ مانا جارہا ہے۔

کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے علیحدگی پسند خیمہ جوائن کیا اور الیکشن سیاست سے نہ صرف دوری اختیار کی بلکہ اس کے خلاف ایک مہم بھی شروع کی۔ جماعت اسلامی پر ماضی میں بھی کئی بار پابندی عائد کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک طویل رپورٹ پیش کی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.