اگست 2019 کے بعد جاری پابندیوں اور پھر مارچ 2020 سے عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن نے وادی کشمیر کی معیشت کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ابتدائی تخمینے کے مطابق یہاں کی معیشت کو 40 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔ جبکہ 5 لاکھ افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بھیٹے ہیں۔ جن میں چھوٹے بڑے صنعتی یونٹوں میں کام کر رہے افراد ،ٹرانسپورٹ سے منسلک افراد، سیاحتی شعبہ سے وابستہ لوگ شو رومز اور دکانوں میں کام کر رہے سیلز مین وغیرہ شامل ہیں۔
کے سی سی آئی نے بے روزگار ہوئے افراد اور نئے سرے سے اپنا کاروبار شروع کرنے والوں کی مدد کی غرض سے ایک ہیلپ لائن شروع کی ہے تاکہ ان کے مشکلات کا ازالہ وقت پر کیا جاسکے۔
کاروبار سے جڑے طبقوں، بشمول دوکاندار، ہوٹل، ہاوس بوٹ مالکان اور ٹرانسپورٹرز وغیرہ کی مالی حالت اس قدر ابتر ہے کہ وہ بینکوں سے لئے گئے لاکھوں کروڑوں روپے کے مالیت کے قرضوں کی قسطیں بھی وقت پر ادا نہیں کر پارہے ہیں۔ حالانکہ انتظامیہ نے اب سرینگر شہر میں پابندیاں ہٹائی ہیں۔ تجارتی سرگرمیاں بحال ہونے کے علاوہ دوکانوں کو بھی باری باری کھولنے کی اجازت کی دی گئی یے۔ تاہم بیشر دوکاندار اب بھی مایوس ہیں۔ دوکانداروں کا کہنا ہے کہ کام نا کے برابر ہے کیونکہ موجودہ حالات کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔
جموں وکشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے حال ہی میں کے سی سی آئی اور دیگر تجارتی انجمنوں سے ایک مٹینگ منعقد کی۔ جس کے بعد ایک کمیٹی کو بھی تشکیل دیا گیا ہے جو یہاں کی معیشت کو ہوئے نقصانات کا تخمینہ لگائے گی، تاکہ ایک جامع پیکیج فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ کے سی سی آئی کے صدر نے کہا کہ اس حوالے سے ایک فیڈ بیک تیار کیا جارہا ہے جو تشکیل شدہ کمیٹی کو دیا جائے گا۔ انہوں نے اس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ انتظامیہ تاجروں کو مناسب مدد فراہم کریں گی جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
واضح رہے لیفٹینٹ گورنر نے معیشت کو ہوئے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لئے کے کے شرما کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔