ETV Bharat / state

اکبر لون کو نیشنل کانفرنس پارلیمانی امیدوار کیوں نہیں بنائے گی - اکبر لون کپواڑہ سے امیدوار نہیں ہوں گے عمر عبداللہ

نیشنل کانفرنس نے ایم پی محمد اکبر لون کو پارلیمنٹ کے انتخابی میدان سے باہر کردیا ہے۔ عمر عبداللہ کے مطابق پارلیمنٹ الیکشن میں اکبر لون نیشنل کانفرنس کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ اکبر لون کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ NC Drops MP Akbar Lone from Parliament Poll Fray

NC Drops MP Akbar Lone
NC Drops MP Akbar Lone
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 2, 2023, 1:26 PM IST

Updated : Nov 3, 2023, 9:31 AM IST

سرینگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعلان کیا ہے کہ این سی کے ممبر پارلیمنٹ اور سینئر لیڈر اکبر لون سنہ 2024 میں ہونے والے پارلیمنٹ الیکشن میں پارٹی کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ الیکشن میں اکبر لون نیشنل کانفرنس کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے کہ وہ الیکشن لڑ سکتے۔ انہوں نے کہا نیشنل کانفرنس کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے کے لیے دوسرا امیدوار میدان میں اتارے گی، جس کا انتخاب پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

Article 370 Hearing In SC میں بھارت کا وفادار شہری ہوں، اکبر لون

عمر عبداللہ نے یہ اعلان ضلع کپواڑہ کے ٹنگڈار علاقے میں کیا جہاں وہ گزشتہ دنوں پارٹی کارکنان کے جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے پارلیمانی انتخابات لڑنے کی شروعات کی ہے جس ضمن میں انہوں نے پونچھ، جنوبی کشمیر اور کپواڑہ اضلاع کے دورے کیے اور وہاں متعدد پارٹی تقاریب سے خطاب کیا۔ نیشنل کانفرنس میں ذرائع کا کہنا ہے پارٹی میں کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے تین لیڈران، معروف شعیہ رہنما آغا روح اللہ، سابق وزراء میر سیف اللہ اور چودھری رمضان میں سے ایک لیڈر کو پارلیمانی الیکشن لڑنے کے متعلق گفتگو کی جارہی ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ پارٹی صدر فاروق عبداللہ ہی کریں گے، البتہ آغا روح اللہ کے متعلق صدر زیادہ سنجیدہ لگے رہے ہیں۔ روح اللہ کا تعلق وسطی ضلع بڑگام سے ہے جبکہ میر سیف اللہ اور چودھری رمضان کپوارہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔

اکبر لون ضلع بانڈی پورہ کے سونہ واری علاقے کے رہنے والے ہیں۔ سنہ 2019 میں انہوں نے کپواڑہ-بارہمولہ پارلیمانی سیٹ پیوپلز کانفرنس سے 32 ہزار ووٹوں سے جیتی تھی۔ اکبر لون کو ان انتخابات میں 132,692 ووٹ ملے تھے، جب کہ ان کے حریف پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو 1،02327، جب کہ عوامی اتحاد پارٹی کے محروس صدر انجینئر رشید 1،01500 ووٹ ملے تھے۔ انجینئر رشید کی وجہ سے سجاد لون یہ سیٹ نہ جیت پائے تھے یا سجاد لون کی وجہ سے انجینئر رشید نہیں جیت سکے۔ قابل ذکر ہے کہ انڈین ایڈمستریٹیو سروس کے متنازع افسر شاہ فیصل بھی انجینئر رشید کیلئے مہم چلارہے تھے کیونکہ انکی پارٹی نے انکے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ شاہ فیصل نے آئی اے ایس سے مستعفی ہوکر سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن 2019 میں انکی گرفتاری اور بعد میں رہائی کے بعد انہون نے سیاست سے تونہ کی اور مرکزی حکومت سے انکی نوکری بحال کرنے کی درخواست کی جسے کچھ مدت کے بعد منظور کیا گیا۔

اکبر لون اس سے قبل بانڈی پورہ کے سونہ واری اسمبلی حلقے سے تین مرتبہ انتخابات جیت چکے تھے۔ انہوں نے سنہ 2002، 2008 اور 2014 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور سنہ 2019 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔اکبر لون نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصے تک انہوں نے جموں وکشمیر ہائی کوٹ میں بحیثیت وکیل کام کیا۔

کپواڑہ-بارہمولہ پارلیمانی سیٹ میں چار اضلاع بشمول کپواڑہ (6)، بارہمولہ (7)، بانڈی پوره (3) اور ضلع بڈگام (3)کے 19 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔ ضلع بڈگام سرینگر پارلیمانی سیٹ میں شامل تھا لیکن 2019 کے بعد کی گئی متنازع حدبندی کے بعد اس ضلع کو کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں شامل کیا گیا۔ اکبر لون کے ایک قریبی رشتہ دار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان کی ناسازگار صحت کی وجہ سے انہوں نے سیاسی سرگرمیوں کو معطل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سونہ واری اسمبلی حلقے سے ان کے فرزند ہلال اکبر لون سیاسی سرگرمیاں کر رہے ہیں اور وہ اس حلقے سے اسمبلی انتخابات لڑیں گے۔ ہلال اکبر لون دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد 18 مہینوں تک قید میں رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ سونہ واری حلقے میں نیشنل کانفرنس کے کارکنان اور عام لوگ ان کی کافی حمایت کرتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ اکبر لون ان کے بیانات کی وجہ سے کافی متنازع رہے ہیں۔ انہوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کو سپریم کوٹ میں چلینج کیا تھا جس کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والے پانچ بنچ والے ججز نے اگست میں کی اور اس سماعت کا حتمی فیصلہ اسی ماہ یا دسمبر میں متوقع ہے۔ اکبر لون نے جموں و کشمیر کی سابق اسمبلی میں "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ دیا تھا جس کے پیش نظر ان کو سپریم کوٹ میں دفعہ 370 کی سماعت میں بحیثیت عرضی گزار ہندوستانی شہری اور آئین کی پاسداری کرنے کا حلف نامہ داخل کرنا پڑا۔

اکتوبر سنہ 2011 میں بطور اسمبلی اسپیکر اکبر لون نے سابق وزیر اور معروف سیاسی شعیہ رہنما مرحوم افتخار انصاری کے ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جس کی فوٹیج عام ہونے پر انہیں شدید خفت کا سامنہ کرنا پڑا۔ بعد ازاں اکبر لون نے اپنے برتاو اور الفاظ کے استعمال پر معذرت کا اظہار کیا ۔ تاہم عمر عبداللہ نے بطور وزیر اعلی اکبر لون کو اس عہدے سے ہٹایا تاہم انہیں اعلیٰ تعلیم کا وزیر بنادیا گیا۔ اس وقت جموں و کشمیر مین نیشنل کانفرنس اور کانگرس کی مخلوط سرکار تھی اور عمر عبداللہ جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے۔

اکبر لون نے اپنا سیاسی کیریئر سنہ 1972 میں نیشنل کانفرنس سے شروع کیا اور اُسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیا لیکن وہ یہ انتخابات ہار گئے تھے۔ سنہ 1977 میں وہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور اُسی برس اسمبلی انتخابات میں ان کو دوسری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے مرحوم عبدالغنی لون کی پیپلز کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1987 کے انتخابات لڑا تاہم وہ تیسری بار بھی ناکام رہے۔ سنہ 1996 میں انہوں نے بطور نیشنل کانفرنس امیدوار اسمبلی انتخاب لڑا تھا لیکن اسوقت سرکاری بندوق بردار سے سیاست میں قدم رکھنے والے محمد یوسف پرے عرف کوکہ پرے نے انہیں شکست دی۔ کوکہ پرے کو فوج کی اعانت حاصل تھی تاہم اکبر لون نے جرأت کا مطاہرہ کرکے انکے خلاف انتخاب لڑا۔ کوکہ پرے کو بعد میں لشکر طیبہ کے عسکریت پسندون نے اسوقت ہلاک کیا جب وہ اپنے ہی گاؤں میں ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے جارہے تھے۔ کوکہ پرے کے منظر سے ہٹنے کے بعد سونا واری علاقے کے ھالات بدل گئے چنانچہ اکبر لون نے سنہ 2002، 2008 اور 2014 کے اسمبلی انتخابات نیشنل کانفرنس کے امیدوار کی حیثیت سے جیت لئے۔ اکبر لون کو اگرچہ ایک جذباتی سیاسی دان تصور کیا جاتا ہے تاہم کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کشمیر کے تشخص کے ساتھ انہیں گہرا انس ہے۔ نیشنل کانفرنس کو اس لیڈر کے سرگرم سیاست سے دور ہوجانے سے ایک ایسی کمی واقع ہوگی جسے پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

سرینگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعلان کیا ہے کہ این سی کے ممبر پارلیمنٹ اور سینئر لیڈر اکبر لون سنہ 2024 میں ہونے والے پارلیمنٹ الیکشن میں پارٹی کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ الیکشن میں اکبر لون نیشنل کانفرنس کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے کہ وہ الیکشن لڑ سکتے۔ انہوں نے کہا نیشنل کانفرنس کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے کے لیے دوسرا امیدوار میدان میں اتارے گی، جس کا انتخاب پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

Article 370 Hearing In SC میں بھارت کا وفادار شہری ہوں، اکبر لون

عمر عبداللہ نے یہ اعلان ضلع کپواڑہ کے ٹنگڈار علاقے میں کیا جہاں وہ گزشتہ دنوں پارٹی کارکنان کے جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی نے پارلیمانی انتخابات لڑنے کی شروعات کی ہے جس ضمن میں انہوں نے پونچھ، جنوبی کشمیر اور کپواڑہ اضلاع کے دورے کیے اور وہاں متعدد پارٹی تقاریب سے خطاب کیا۔ نیشنل کانفرنس میں ذرائع کا کہنا ہے پارٹی میں کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے تین لیڈران، معروف شعیہ رہنما آغا روح اللہ، سابق وزراء میر سیف اللہ اور چودھری رمضان میں سے ایک لیڈر کو پارلیمانی الیکشن لڑنے کے متعلق گفتگو کی جارہی ہے۔ تاہم حتمی فیصلہ پارٹی صدر فاروق عبداللہ ہی کریں گے، البتہ آغا روح اللہ کے متعلق صدر زیادہ سنجیدہ لگے رہے ہیں۔ روح اللہ کا تعلق وسطی ضلع بڑگام سے ہے جبکہ میر سیف اللہ اور چودھری رمضان کپوارہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔

اکبر لون ضلع بانڈی پورہ کے سونہ واری علاقے کے رہنے والے ہیں۔ سنہ 2019 میں انہوں نے کپواڑہ-بارہمولہ پارلیمانی سیٹ پیوپلز کانفرنس سے 32 ہزار ووٹوں سے جیتی تھی۔ اکبر لون کو ان انتخابات میں 132,692 ووٹ ملے تھے، جب کہ ان کے حریف پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو 1،02327، جب کہ عوامی اتحاد پارٹی کے محروس صدر انجینئر رشید 1،01500 ووٹ ملے تھے۔ انجینئر رشید کی وجہ سے سجاد لون یہ سیٹ نہ جیت پائے تھے یا سجاد لون کی وجہ سے انجینئر رشید نہیں جیت سکے۔ قابل ذکر ہے کہ انڈین ایڈمستریٹیو سروس کے متنازع افسر شاہ فیصل بھی انجینئر رشید کیلئے مہم چلارہے تھے کیونکہ انکی پارٹی نے انکے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ شاہ فیصل نے آئی اے ایس سے مستعفی ہوکر سیاست میں قدم رکھا تھا لیکن 2019 میں انکی گرفتاری اور بعد میں رہائی کے بعد انہون نے سیاست سے تونہ کی اور مرکزی حکومت سے انکی نوکری بحال کرنے کی درخواست کی جسے کچھ مدت کے بعد منظور کیا گیا۔

اکبر لون اس سے قبل بانڈی پورہ کے سونہ واری اسمبلی حلقے سے تین مرتبہ انتخابات جیت چکے تھے۔ انہوں نے سنہ 2002، 2008 اور 2014 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور سنہ 2019 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔اکبر لون نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ عرصے تک انہوں نے جموں وکشمیر ہائی کوٹ میں بحیثیت وکیل کام کیا۔

کپواڑہ-بارہمولہ پارلیمانی سیٹ میں چار اضلاع بشمول کپواڑہ (6)، بارہمولہ (7)، بانڈی پوره (3) اور ضلع بڈگام (3)کے 19 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔ ضلع بڈگام سرینگر پارلیمانی سیٹ میں شامل تھا لیکن 2019 کے بعد کی گئی متنازع حدبندی کے بعد اس ضلع کو کپواڑہ بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں شامل کیا گیا۔ اکبر لون کے ایک قریبی رشتہ دار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان کی ناسازگار صحت کی وجہ سے انہوں نے سیاسی سرگرمیوں کو معطل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سونہ واری اسمبلی حلقے سے ان کے فرزند ہلال اکبر لون سیاسی سرگرمیاں کر رہے ہیں اور وہ اس حلقے سے اسمبلی انتخابات لڑیں گے۔ ہلال اکبر لون دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد 18 مہینوں تک قید میں رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ سونہ واری حلقے میں نیشنل کانفرنس کے کارکنان اور عام لوگ ان کی کافی حمایت کرتے ہیں۔

غور طلب ہے کہ اکبر لون ان کے بیانات کی وجہ سے کافی متنازع رہے ہیں۔ انہوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کو سپریم کوٹ میں چلینج کیا تھا جس کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والے پانچ بنچ والے ججز نے اگست میں کی اور اس سماعت کا حتمی فیصلہ اسی ماہ یا دسمبر میں متوقع ہے۔ اکبر لون نے جموں و کشمیر کی سابق اسمبلی میں "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ دیا تھا جس کے پیش نظر ان کو سپریم کوٹ میں دفعہ 370 کی سماعت میں بحیثیت عرضی گزار ہندوستانی شہری اور آئین کی پاسداری کرنے کا حلف نامہ داخل کرنا پڑا۔

اکتوبر سنہ 2011 میں بطور اسمبلی اسپیکر اکبر لون نے سابق وزیر اور معروف سیاسی شعیہ رہنما مرحوم افتخار انصاری کے ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جس کی فوٹیج عام ہونے پر انہیں شدید خفت کا سامنہ کرنا پڑا۔ بعد ازاں اکبر لون نے اپنے برتاو اور الفاظ کے استعمال پر معذرت کا اظہار کیا ۔ تاہم عمر عبداللہ نے بطور وزیر اعلی اکبر لون کو اس عہدے سے ہٹایا تاہم انہیں اعلیٰ تعلیم کا وزیر بنادیا گیا۔ اس وقت جموں و کشمیر مین نیشنل کانفرنس اور کانگرس کی مخلوط سرکار تھی اور عمر عبداللہ جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے۔

اکبر لون نے اپنا سیاسی کیریئر سنہ 1972 میں نیشنل کانفرنس سے شروع کیا اور اُسی سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیا لیکن وہ یہ انتخابات ہار گئے تھے۔ سنہ 1977 میں وہ جنتا پارٹی میں شامل ہوئے اور اُسی برس اسمبلی انتخابات میں ان کو دوسری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے مرحوم عبدالغنی لون کی پیپلز کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 1987 کے انتخابات لڑا تاہم وہ تیسری بار بھی ناکام رہے۔ سنہ 1996 میں انہوں نے بطور نیشنل کانفرنس امیدوار اسمبلی انتخاب لڑا تھا لیکن اسوقت سرکاری بندوق بردار سے سیاست میں قدم رکھنے والے محمد یوسف پرے عرف کوکہ پرے نے انہیں شکست دی۔ کوکہ پرے کو فوج کی اعانت حاصل تھی تاہم اکبر لون نے جرأت کا مطاہرہ کرکے انکے خلاف انتخاب لڑا۔ کوکہ پرے کو بعد میں لشکر طیبہ کے عسکریت پسندون نے اسوقت ہلاک کیا جب وہ اپنے ہی گاؤں میں ایک کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے جارہے تھے۔ کوکہ پرے کے منظر سے ہٹنے کے بعد سونا واری علاقے کے ھالات بدل گئے چنانچہ اکبر لون نے سنہ 2002، 2008 اور 2014 کے اسمبلی انتخابات نیشنل کانفرنس کے امیدوار کی حیثیت سے جیت لئے۔ اکبر لون کو اگرچہ ایک جذباتی سیاسی دان تصور کیا جاتا ہے تاہم کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کشمیر کے تشخص کے ساتھ انہیں گہرا انس ہے۔ نیشنل کانفرنس کو اس لیڈر کے سرگرم سیاست سے دور ہوجانے سے ایک ایسی کمی واقع ہوگی جسے پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

Last Updated : Nov 3, 2023, 9:31 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.