نیشنل کانفرنس نے الزام لگایا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی پیدوارا 'اپنی پارٹی' کے صدر الطاف بخاری بی جے پی لیڈران کی بولی بولنے لگے ہیں اور عوامی اتحاد برائے گپکار اعلامیہ کے ڈی ڈی سی الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے پر موصوف کے ریمارکس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ نئی دلی اور ناگپور میں بیٹھے اپنے آقاﺅں کی خوشنودی میں لگے ہوئے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے اپنے ایک بیان میں الطاف بخاری کے ریمارکس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد سے لیکر آج تک موصوف اقتدار کی حوس میں نئی دلی اور ناگپور کے چکر کاٹ رہے ہیں اور آر ایس ایس و بی جے پی کے اشاروں پر نانچنے کے باوجود بھی موصوف کو ابھی تک ہزیمت ہی اٹھانا پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن غیر جمہوری اور غیر آئینی طور پر چھینے جانے کے بعد موصوف پہلے ایسے شخص تھے جو نریندر مودی اور امت شاہ کی گود میں جاکر بیٹھ گئے اور اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔
ساگر نے کہا کہ عوامی اتحاد برائے گپکار اعلامیہ کی مضبوطی سے پہلے ہی بی جے پی اور اُن کی پراکسی جماعتیں بوکھلاہٹ کی شکار ہوگئیں تھیں اور اب اس عوامی اتحاد کی طرف سے ڈی ڈی سی انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کے فیصلے سے ان کی نیندیں حرام ہوگئیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ یہ فیصلہ تاریخی اتحاد کی علامت ہے اور اس سے بی جے پی اور اُس کی پراکسیوں کے لئے جموں وکشمیر میں زمین اور تنگ ہوجائے گی۔
این سی جنرل سکریٹری نے کہا کہ جموں، کشمیر اور لداخ میں صرف الطاف بخاری اور اُن کے حواریوں کی واحد جماعت ہے جس نے خصوصی پوزیشن کے مطالبے کو بالائے طاق رکھا ہوا ہے اور نئی دلی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تینوں خطوں کی سبھی جماعتیں مرکزی حکومت کے غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلوں سے نالاں ہیں صرف بی جے پی اور اپنی پارٹی مطمئن ہیں اور ایسے حالات میں بھی اقتدار کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لداخ اور جموں میں بی جے پی کے اپنے لیڈران اور عہدیداران بھی زمینوں اور نوکریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سراپا احتجاج ہیں لیکن الطاف بخاری اور اُن کے حواریوں کو صرف اقتدار کی فکر ہے اور موصوف ناگپوری آقاﺅں کو خوش کرنے کے لئے ہر اس جماعت کو نشانہ بنا رہے ہیں جو جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الطاف بخاری نے پہلے دعویٰ کیا کہ جموں وکشمیر کی نوکریوں کو کچھ نہیں ہوگا اور انہیں نئی دلی سے اس بات کی یقین دہانی ملی ہے لیکن اس کے اگلے ہی روز یہاں کے روزگار کے لئے پورے ملک کے لوگوں کو اہل بنادیا گیا۔ پھر موصوف نے ایک اور دعویٰ کیا کہ نئی دلی نے ایک مضبوط ڈومیسائل پر اتفاق کرلیا ہے اور جموں وکشمیر کی زمینیں محفوظ رہیں گی لیکن موصوف کا یہ دعویٰ بھی زیادہ دن نہیں ٹک پایا اور مرکزی حکومت نے اراضی قوانین کی دھجیاں اڑا کر پورے ملک کے لوگوں کو یہاں زمین خریدنے کا اہل بنا ڈالا۔
یہ بھی پڑھیں: موسم سرما کے دوران کورونا مثبت معاملات میں اضافے کا خدشہ
ساگر نے کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اپنی پارٹی کا قیام کشمیر میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی پراکسی جماعت ہے اور انہیں جموں وکشمیر میں خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے اٹھ رہی آواز کو سبوتاژ کرنے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔