انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس سمیت جموں وکشمیر کی سبھی جماعتوں کے لیڈران گزشتہ زائد از چار ماہ سے پابند سلاسل ہیں۔
حسنین مسعودی نے جمعرات کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کی 114 ویں سالگرہ کے موقع پر سرینگر کے مضافاتی علاقہ نسیم باغ حضرت بل میں ان کے مقبرہ پر حاضری دینے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا: 'یہاں سیاسی عمل بالکل مفلوج ہے۔ ہمارے ضلعی، تحصیل اور بلاک سطح کے تقریباً سبھی لیڈر بند ہیں۔ یہ صرف نیشنل کانفرنس کی ہی بات نہیں ہے بلکہ یہاں کے سیاسی افق پر جتنی بھی جماعتیں ہیں ان کے قائدین بھی پابند سلاسل ہیں۔ سیاسی عمل شروع ہونے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا'۔
حسنین مسعودی نے کہا کہ اہلیان جموں و کشمیر نے پانچ اگست کے فیصلوں، جن کے تحت ریاست کی خصوصی پوزیشن ختم کرکے اسے دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا گیا، کو مسترد کیا۔
انہوں نے کہا: 'یہاں کے لوگوں نے پانچ اگست کے فیصلوں کو مسترد کیا ہے۔ لوگوں نے اپنے روز مرہ کی سرگرمیاں معطل کرکے ان فیصلوں کو مسترد کیا۔ آئین ہند کو روند کر یہ فیصلے لئے گئے'۔
رکن پارلیمان مسعودی نے کہا کہ پانچ اگست کو شیخ محمد عبداللہ کے مقبرے ایک بہت بڑا اجتماع منعقد ہوتا تھا لیکن اجتماع کی اجازت نہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کے حالات کتنے نارمل ہیں۔
انہوں نے کہا: 'یہاں ہزاروں لوگوں کا مجمع ہوا کرتا تھا۔ وہ صرف کشمیر کے ہی نہیں بلکہ جموں اور لداخ کے بھی قائد تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم سکھ اتحاد کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کی برسی پر پابندیاں لگانا اپنی داستان اپنے آپ بیان کرتا ہے۔ اس طرح آپ پورے ملک کے عوام کو بتاتے ہیں کہ یہاں کس طرح کی نارمسلی ہے۔ کیا ان کے فرزند اور پوتا یہاں نہیں ہونے چاہیے تھے؟'۔