انتظامیہ کی طرف سے مرتب نعیم اختر پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ 'وہ کشمیری علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی کتاب پڑھنے کا لوگوں کو مشورہ دے رہے تھے۔'
ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ 'نعیم اختر نے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی انتخابی فوائد کے لیے خطرناک کھیل کھیل رہی ہے اور انتخابات جیتنے کے لیے فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنا چاہتی ہے، جس کے باعث ان پر پی ایس اے عائد کیا گیا ہے۔'
ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ بااختیار ذرائع سے موصول اطلاعات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نعیم اختر نے مبینہ طور پر نوجوانوں سے غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھنے اور بھارت مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے کہا ہے۔
اختر نے قومی تفتیشی ایجنسی پر بھی علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کو نئی دہلی طلب کرنے پر حکومت پر شدید تنقید کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ اس کا مقصد 'کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے'۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 5 اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ اس فیصلے سے قبل اور بعد میں درجنوں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی پسند رہنما، وکلا، تاجر سمیت تقریباً 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا تھا۔
گرچہ گرفتار شدگان میں سے متعدد افراد کو رہا کیا گیا، تاہم تین سابق وزرائے اعلیٰ، کئی سابق کابینہ وزرا اور علیحدگی پسند رہنما ابھی بھی نظر بند ہیں۔
تینوں نظر بند سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ علی محمد ساگر، سرتاج مدنی، نعیم اختر، ڈاکٹر شاہ فیصل، ہلال اکبر لون پر پی ایس اے عائد کرکے ان کی معیادِ نظر بندی میں مزید توسیع کردی ہے۔
انتظامیہ نے ان رہنماؤں پر عائد کردہ پی ایس اے کے ڈوزیئر جاری کیے ہیں۔
عمر عبداللہ پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ ملی ٹینسی کے عروج اور چناؤ بائیکاٹ کے باوجود بھی ووٹ بٹورنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ٹویٹر کے ذریعے لوگوں کو ملک کی سالمیت اور مرکزی حکومت کی طرف سے آئینی دفعات 370 اور 35 اے کی تنسیخ کے خلاف اکسایا جبکہ محبوبہ مفتی پر عائد پی ایس اے کے ڈوزیئر میں کہا گیا ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کی ساتھی اور اپنے والد کی لاڈلی ہیں۔