عامر بشیر کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پُرامن احتجاج کرنے پر ان کی والدہ اور چاچی جن کی عمر تقریباً 70 سے 80 برس کے درمیان ہیں، جیل بھیجا گیا ہے۔ کشمیر میں سینکٹروں نہیں ہزاروں کی تعداد میں بچوں جن میں 9 سالہ بھی شامل ہیں، کو دوران شب اٹھا کے لے گئے ہیں اور نامعلوم مقامات پر لے جایا جاتا ہے۔
عامر بشیر نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ 'ان کے ساتھ مار پیٹ کی جاتی ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میری والدہ اور ان کی بہن سینٹرل جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھیں'۔
عامر بشیر نے کہا کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور انہیں دوائیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ان ماؤں سے بہتر ہیں جنہوں نے اس لاک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے اپنے بیٹوں کو نہیں دیکھا۔ کشمیر میں یہ عام بات ہے۔
انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ ' میری والدہ نے کہا ہم سے پوچھو کہ ہم خوش کیوں نہیں ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟۔ ان خواتین پر فخر ہے کہ وہ فوجی کی طاقت کے خلاف کھڑی ہوئیں'۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سرینگر میں خواتین کا ایک گروپ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے خلاف پر امن احتجاج کر رہا تھا۔ اس گروپ میں فاروق عبداللہ کی بہن ثریا متو اور دختر صفیہ عبداللہ اس گروپ کو لیڈ کر رہی تھیں، تاہم گزشتہ روز ثریا متو اور دختر صفیہ عبداللہ سمیت کئی خواتین کو رہا کر دیا گیا تھا۔