سرینگر:میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے ریاستی انتظامیہ کی جانب سے ان کی بار بار نظر بندی خصوصاً جمعتہ المبارک کے دن انہیں مرکزی جامع مسجد سرینگر میں خطبہ نہ دینے اور جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روکنے کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اگست 2019 سے 4 سال کی مسلسل گھر میں نظربندی سے رہائی کے بعد انتظامیہ نے صرف تین جمعہ کو جامع مسجد جانے کی اجازت دی اور اس کے بعد سے ہر جمعہ کو انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکام کی طرف سے اس کی کوئی معقول وجہ فراہم کئے بغیر جامع مسجد کو بھی لگاتار 10 جمعہ تک لوگوں کے لئے بند کر دیا گیا تھا اور گزشتہ ہفتے سے ہی لوگوں کو وہاں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی،لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کوئی نہیں جانتا کیونکہ گزشتہ گیارہ جمعہ سے مجھ پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے ضمن میں پابندی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکام کی مرضی سے ہی مرکزی جامع مسجد کو مسلمانوں کیلئے نماز کیلئے بند یا کھول دیا جاتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اس کی کوئی وجہ بھی نہیں پوچھ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حکام کی طرف سے یہ من مانی سے عبارت اقدامات مذہبی حقوق اور مسلمانوں کے جذبات کی بے توقیری ہے، حتیٰ کہ بنیادی انسانی اصول یعنی مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہ دینا حکام کے اپنے بیانات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ جموں وکشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور میں ایک آزاد آدمی ہوں اور کہیں بھی جاسکتا ہوں۔
میر واعظ نے اپنے اس امید کو دہرایا کہ مذہبی حقوق سمیت ہر قسم کا جبر ”امن“ نہیں لاسکتا اور فیصلہ سازی کے ذمہ داروں کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور تاریخی تناظر کی روشنی میں طویل مدتی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔
مزید پڑھیں:
واضح رہے میر واعظ عمر فاروق کشمیر کے مذہبی رہنما اور علحیدگی پسند تنظیم کُل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی ہیں۔میرواعظ خاندان کی مرکزی جامع مسجد سے وابستگی رہی ہے۔ والد کے قتل کے بعد عمر فاروق میرواعظ بنے تب سے وہ جامع میں جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں۔