معروف اخبار ایکنامک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے سرینگر کے مضافاتی علاقہ انچار میں سیٹلائٹ فون استعمال کرنے کا پتہ لگایا گیا تھا جس کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر پولیس کے ایس پی سجاد شاہ نے بتایا، ' ہم نے سرینگر کے انچار علاقے میں تلاشی کاروائی کی تھی۔ عسکریت پسندوں کی موجودگی کی کوئی خاص اطلاع نہیں ملی تھی'۔
ایک اور پولیس افسر نے بتایا کہ ایک مقامی باشندہ کو علاقے سے حراست میں لیا گیا تھا اور سرچ آپریشن شبہے کی بنیاد پر کیا گیا تھا، لیکن عسکریت پسند 'تھوریا سیٹلائٹ فونز' کو استعمال کرنے کے بعد میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
رواں ماہ کے اوائل میں، جموں و کشمیر پولیس نے شمالی کشمیر میں دو تصادم کے مقامات سے ایک سیٹلائٹ فون برآمد کیا تھا۔
اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے عسکریت پسندوں نے مواصلات عائد پابندی سے فائدہ اٹھانے اور دارالحکومت سرینگر میں جانے کی بھی کوشش کی، تاہم ضلع میں سکیورٹی فورسز کو چوکنا اور مستعد رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔گزشتہ کچھ ماہ کے دوران، سرینگر اور اس کے مضافات میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں کی تعداد اچانک بڑھ گئی ہے، حکام نے اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔
نوگام اور پیرم پورہ علاقوں میں عسکریت پسندوں موجودگی کی خفیہ اطلاع ملی، پولیس اور دیگر ایجنسیوں نے بتایا کہ سرینگر میں چار یا پانچ سرگرم عسکریت پسند ہوسکتے ہیں۔
مواصلاتی پابندی کے باعث عسکریت پسندوں کی گرمیاں کم ہوگئی ہیں۔ پانچ اگست کے بعد وادی کے مختلف علاقوں میں ہوئے تصادم میں 20 کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت 5 اگست کو دفعہ 370 کو ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا ہے۔
اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل وادی میں سخت ترین بندیشیں عائد کی گئی تھیں، اس کے علاوہ تمام مواصلاتی رابطے معطل کر دئے گئے تھے، گرچہ انتظامیہ کی جانب سے بندیشیں ہٹا لی لیکن اس کے بعد غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ بدستور جاری ہے۔
گزشتہ ماہ انتظامیہ نے پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بحال کیا لیکن انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر مسلسل پابندی عائد ہے۔