سرینگر: جموں و کشمیر پولیس نے ایڈوکیٹ بابر قادری کی ہلاکت کے سلسلے میں بدھ کی صبح سرینگر کے تین ممتاز وکلا سمیت چار رہائش گاہوں پر تلاشی کارروائیاں انجام دیں۔ پولیس نے ایڈوکیٹ میاں قیوم، ایڈوکیٹ منظور ڈار اور ایڈوکیٹ مظفر محمد کی رہائش گاہوں اور دفاتر کی تلاشی لی۔ Police Conducts Raids In Srinagar تاہم ایک دن بعد سرینگر سے شائع ہونے والا ایک انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر نے ایک خبر شائع کی جس کا عنوان تھا "ایڈوکیٹ میاں قیوم نے بندوق کی نوک پر مندر کی 159 کنال اراضی دھوکہ دہی کے ذریعے ہتھیا لی، پولیس ذرائع"۔ Greater Kashmir controversial news on Mian Qayoom
پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے گریٹر کشمیر نے دعویٰ کیا کہ میاں عبدالقیوم کے گھر پر چھاپہ کے دوران برآمد کے گئے دستاویزات میں مندر کی 159 کنال سے زیادہ اراضی کے کاغذات بھی شامل ہیں جو مبینہ طور پر میاں قیوم کے ذریعہ بندوق کی نوک پر زبردستی اور دھوکہ دہی کے ذریعے ہتھیا لی گئی تھی۔"Mian Qayoom grabbed 159 kanal temple land
اس حوالے سے ایڈوکیٹ عبدالقیوم نے جمعرات کو اخبار کے ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر سے خبر کی وضاحت طلب کی۔ انہوں نے کیا کہ یہ خبر مکمل طور پر جھوٹی اور بے بنیاد ہے اور اس کا واضح مقصد عوام میں میری شبیہ کو خراب کرنا ہے۔ انہوں نے اخبار کی جانب سے وضاحت شائع نہ کرنے کی صورت میں قانونی راستہ اختیار کرنے کا بھی انتباہ دیا۔ Adv Mian Quyoom on Land Grabbed
میاں قیوم نے اخبار کو دیے گئے نوٹس میں کہا کہ "آپ کی طرف سے اخبار میں شائع ہونے والی خبر سراسر جھوٹی اور بے بنیاد ہے اور اس کا واضح مقصد عوام میں میری شبیہ کو داغدار کرنا ہے۔ آپ کو خبر شائع کرنے سے پہلے کم از کم حقائق کی توثیق کرنی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے آپ نے ایسا نہیں کیا اور فوراً ہی خبر شائع کر دی، جس سے میری ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔"
ایڈوکیٹ قیوم نے اپنی تحویل میں موجود اراضی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ "کہ میں نے نہ تو کسی مندر کی زمین بندوق کی نوک پر ہڑپ لی ہے اور نہ ہی مندر کی 159 کنال اراضی کہیں بھی میرے قبضے میں ہے۔ یہ درست ہے کہ برزولہ میں 159 کنال اراضی منڈار رگونتھ کی ہے جو کہ قدیم زمانے سے تقریباً 130 کرایہ داروں کے قبضے میں ہے، لیکن میرے اور میرے بھائی بہن کے پاس صرف 6 کنال اور 10 مرلہ زمین ہے جو کہ ہمیں اپنے والد سے وراثت میں ملی ہے، میرے والد سے پہلے میرے دادا کے پاس مذکورہ 6 کنال اور 10 مرلہ زمین تھی۔ یہ 6 کنال اور 10 مرلہ زمین میرے نام اور میرے بھائیوں کے نام پر ہے۔ سنہ 2010 میں مجھے اورمیرے بھائی بہن کو مذکورہ زمین کا 1 کنال اور 12 مرلہ ملا ہے۔"
مزید پڑھیں:
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ریونیو ریکارڈ میں زمین ہمارے نام "محفوظ کرایہ دار" کے طور پر درج ہے اور یہ پوزیشن پچھلے دو سو سالوں سے جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل ڈویژنل کمشنر کشمیر سرینگر نے 16 اکتوبر 2019 کے حکم نامے جاری کرتے ہوئے مذکورہ اراضی کی ملکیت وجے شرما نام کے شخص اور اس کے بھائی کے حق میں تصدیق کی تھی، جو جموں کے رہائشی ہیں۔ اس کے مالکان نے مذکورہ اراضی سے تمام 130 کرایہ داروں کو بے دخل کرنے کا بھی حکم دیا۔ مذکورہ حکم مورخہ 16 اکتوبر 2019 کو نہ صرف وجے شرما اور ان کے بھائی نے ہائی کورٹ کے سامنے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ تمام رٹ پٹیشنز ابھی تک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور عدالت کے حتمی فیصلے کا انتظار ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "اس لیے میں آپ سے (گریٹر کشمیر) سے درخواست کرتا ہوں کہ برائے مہربانی خبر کی تردید شائع کریں اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو میرے پاس اس معاملے کو ہائی کورٹ کے نوٹس میں لانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا"
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ میاں قیوم کو حکام نے 5 اگست 2019 کے دن حراست میں لیا تھا جب کشمیر کی ناکہ بندی کرکے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خودمختارانہ حیثیت ختم کی گئی تھی اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتطام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ میاں قیوم آگرہ جیل میں نظر بند تھے لیکن بعد میں انہیں طویل نظربندی کے بعد عدالتی احکامات کے تحت رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ سیاسی طور گوشہ نشین ہوگئے ہیں اور اپنی ساری توجہ وکالت پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ماضی میں کل جماعتی حریت کانفرنس کی ایک اکائی تھی تاہم بعد میں حریت کے دو حصوں میں بٹ جانے کے بعد وکیلوں کی یہ تنظیم الگ ہوگئی ۔مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں اس کا مؤقف حریت آئین کے عین مطابق ہی رہا۔ گزشتہ برس بار ایسوسی ایشن نے تنظیمی انتخابات کیلئے کارروائی شروع کی تھی لیکن کووڈ پابندیوں کے پیش نظر حکام نے یہ انتخابات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔