سرینگر کے حبک علاقے کے رہنے والے 35 سالہ رؤف عالم بٹ کو بچپن سے ہی نئی ایجادات کا شوق تھا۔ جب وہ دس برس کے تھے تبھی انہوں نے ایک میوزیکل انسٹرومنٹ 'رباب' تیار کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک وہ تقریبا 150 سے زائد چیزیں بنا چکے ہیں جس کے لیے انہیں قومی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں رؤف عالم بٹ کا کہنا تھا کہ 'جب میں پانچ یا سات برس کا تھا تبھی ہمارے علاقے میں رباب نواز نور محمد آیا کرتے تھے۔ میں بھی اُن کو سننے جایا کرتا تھا۔ تاہم میرا رجحان موسیقی کی طرف نہیں بلکہ رباب سے نکلتی اس دھن پر تھا جس نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ پروگرام سے گھر لوٹنے کے بعد میں نے اپنے والد سے رباب خریدنے کی خواہش ظاہر کی لیکن مہنگا ہونے کی وجہ سے میرے والد نے مجھے سمجھایا اور اس کے عوض دوسری چیزیں لانے کی بات کہی۔ میں اس وقت تھوڑا ناراض ہوا لیکن دل میں یہ ارادہ کرلیا کہ اگر اسے خریدا جا نہیں سکتا تو بنایا تو جاسکتا ہے۔ میں نے کہا 'کوئی بات نہیں میں خود بنا لوں گا۔'
'اس دن کے بعد میں مسلسل رباب بنانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا، چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جمع کرتا، انہیں سمیٹ کر رکھتا جیسے پلاسٹک کے ڈبے، بیڈمنٹن، ریشم کے دھاگے ان ساری چیزوں کو میں نے جمع کیا اور بالاخر میں نے رباب تیار کر لیا۔'
رؤف عالم بٹ اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ذکورا کیمپس میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ 'اکثر لوگ اختراع اور ایجاد کو ایک ہی مانتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایجاد کا تعلق نئی مصنوعات کی تخلیق سے ہے اور اختراع کا مطلب ہے قدر میں اضافہ کرنا یا موجودہ مصنوعات میں تبدیلی لانا ہے۔ کشمیر کے لوگ ہر قدم پر مشکلات سے دوچار ہیں جیسے بجلی، سردی، سڑک، ٹرانسپورٹ سب سے ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔ اختراع سے ہم عوام کی مشکلات کم کر سکتے ہیں'۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رؤف کی ان ایکٹیوٹیز کو دیکھ کر ان کے دوست انہیں 'کشمیر کے رنچھوڑ' کے نام سے پکارتے ہیں۔ اصلا یہ نام ہندی فلم تھری ایڈیٹس سے لیا گیا ہے۔ اس فلم میں عامر خان کا نام رنچھوڑ ہوتا ہے اور وہ بھی اختراع میں ماہر ہوتے ہیں۔ رؤف بٹ نے بتایا کہ جب یہ فلم منظر عام پر آئی تھی اس وقت میں ایم- ٹیک کا طالب علم تھا۔ میرے انوویشن کو دیکھ کر میرے دوست مجھے رنچھوڑ کہنے لگے۔ اب تک 150 انوویشن کر چکا ہوں'۔
اپنے انوویشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا ' کہ اکثر بجلی کے پول پر کام کرتے ہوئے کئی الیکٹریشن کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوچکے ہیں، یا پھر بورویل صاف کرنے والے مزدوروں کی بھی کام کرتے وقت دم گٹھنے سے موت ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کی جان بچانے کے لیے بھی میں نے انوویشن کیا۔ اس کے علاوہ درختوں سے اخروٹ اتارنے والوں کے لیے بھی مستقبل میں کام کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں ترقی یافتہ ممالک اور ہم میں یہی فرق ہے کہ وہاں انوویشن کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہاں بہت کچھ ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سنہ 2014 میں، میں نے اپنے ایک طالب علم کے ساتھ مل کر مفلوج افراد کے لیے ڈائپر بنایا۔ جب ان افراد کو رفع حاجت محسوس ہو تو یہ ڈائپر قبل از وقت الرٹ کر دیتا ہے۔ تمام ٹیسٹ کے بعد ہم نے اسے شیر خوار بچوں کے لیے بھی بنایا۔ خوشی کی بات ہے کہ اس انوویشن سے متاثر ہو کر جاپان کی کمپنی 'جاپان یونیلیور' نے مجھے سے رابطہ کیا اور اس انوویشن کو خریدنے کی بات کی۔
وہاں کی ٹیم نے اس کی جانچ کے بعد دعوی کیا کہ ایسی ٹیکنالوجی دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یہ ڈائپر ابھی مارکیٹ میں نہیں آیا کیوں کہ چند لوازمات ابھی باقی ہیں۔ میں اپنے طلبہ کو بھی اس بارے میں بتاتا ہوں جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے'۔
رؤف بٹ نے دوران گفتگو چند پریشانیوں کا بھی ذکر کیا۔ ان کہنا تھا کہ کوئی بھی انوویشن اس وقت مارکیٹ میں اس لیے نہیں ہے کیونکہ اس کی بڑی وجہ انکیوبیٹر کا نہ ہونا ہے۔
ایک انوویٹر کنسیپٹ تیار کرتا ہے، اس کے بعد انکیوبیٹر کا کام ہوتا ہے جو اس کنسیپٹ کو حقیقی شکل دے۔ اس کے بعد ہی بازار میں وہ چیزیں آتی ہیں لیکن یہاں یہ بیچ کی کڑی غائب ہے۔ میں انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ " ایک انوویٹر کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کیونکہ جب ایسا نہیں ہوتا تو لوگوں کی اس کام میں دلچسپی نہیں رہتی۔ لیکن اگر یہ آپ کا پیشن ہو تو پھر بغیر سوچے آپ کرتے رہیں گے لیکن ہر کسی میں یہ پیشن نہیں ہوتا۔
- مزید پڑھیں: کشمیر کے ہونہاروں کے حیرت انگیز ایجادات
قابل ذکر ہے کہ رؤف بٹ کو ملک سے باہر جا کر اس شعبے میں کام کرنے کے متعدد بڑے مواقع ملے، تاہم انہوں نے 'وطن کی محبت' کو سامنے رکھتے ہوئے کہیں جانا پسند نہیں کیا۔