ETV Bharat / state

Trans Women Working in Corporate sector کشمیر کی خواجہ سرا خاتون "شعیب خان" کی متاثر کن کہانی

2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 5 ہزار قریب ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں اور زیادہ ہے۔

meet-kashmirs-only-trans-woman-working-in-a-corporate-sector
کشمیر کی ٹرانس خاتون "شعیب خان" کی متاثر کن کہانی
author img

By

Published : Jun 5, 2023, 3:53 PM IST

Updated : Jun 5, 2023, 4:50 PM IST

کشمیر کی خواجہ سرا خاتون "شعیب خان" کی متاثر کن کہانی

سرینگر: شعیب خان کشمیر کی ایسی پہلی ٹرانس جیننڈر خاتون ہیں جو تمام چلینجز اور مشکلات کو مات دیتے ہوئے نہ صرف سماج میں اپنی الگ پہچانے بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں بلکہ آج کی تاریخ میں یہ کارپوریٹ سیکٹر میں اپنی ایک شناخت بنا چکی ہیں۔ شعیب کا تعلق شہر سرینگر ہے۔ اس ہونہار خواجہ سرا کی پرورش اور ابتدائی اسکولی تعلیم سرینگر سے ہوئی جب کہ انہوں نے اپنا ایم بی اے کشمیر یونیورسٹی سے کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کے سفر میں راستے کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں لیکن اگر انسان اپنے مقصد میں سچا ہو اور لگن پکی ہو تو کامیابی کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ خواجہ سرا شعیب خان کے ساتھ بھی ہوا، جس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کسی بھی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا اور اپنی ہمت اور بے پناہ محنت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ خواجہ سراؤں کی ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ اور ان کے اونچے قہقہے ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت چھپاتے ہیں۔ ایسے میں خواجہ سرا پیدائش سے لیکر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لیے زرا مشکل ہے۔

33 سالہ شعیب خان کو بھی اپنی زندگی میں کافی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک معاشرے کے امتیازی سلوک اور معاشرتی رویوں کے علاوہ دیگر مسائل کا بھی انہیں سامنا رہا۔ تاہم انہوں نے ان تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے اپنے مستقبل کو سنوارنے پر توجہ مرکوز کی۔شعیب کو پہلے آئیر لائن میں بطور فلائٹ اٹینڈنٹ کام کرنے کا موقع ملا اور آج یہ کارپوریٹ کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر اپنے فرائز بخوبی انجام دے رہی ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 5 ہزار قریب ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سال 2014 میں اگرچہ عدالت اعظمی نے ایک فیصلے کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور پر درجہ دیا مگر اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں ابھی تک وہ شناخت نہیں مل پائی ہے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن اور خواجہ سراؤں کی حالت زار

شیعب خان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے اور تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔ جب تک خواجہ سراوں کو معاشرے کا حصہ قبول نہیں کیا جائے گا ان کی حالت زار بہتر نہیں ہوگی۔ ٹرانس خاتون شعیب خان نے اپنی لگن اور مثبت سوچ سے نہ صرف سماج میں اپنی الگ پہچان بنائی، بلکہ یہ خواجہ سرا برادری کے لیے بھی مشعل راہ بن رہی ہیں۔

کشمیر کی خواجہ سرا خاتون "شعیب خان" کی متاثر کن کہانی

سرینگر: شعیب خان کشمیر کی ایسی پہلی ٹرانس جیننڈر خاتون ہیں جو تمام چلینجز اور مشکلات کو مات دیتے ہوئے نہ صرف سماج میں اپنی الگ پہچانے بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں بلکہ آج کی تاریخ میں یہ کارپوریٹ سیکٹر میں اپنی ایک شناخت بنا چکی ہیں۔ شعیب کا تعلق شہر سرینگر ہے۔ اس ہونہار خواجہ سرا کی پرورش اور ابتدائی اسکولی تعلیم سرینگر سے ہوئی جب کہ انہوں نے اپنا ایم بی اے کشمیر یونیورسٹی سے کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کے سفر میں راستے کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں لیکن اگر انسان اپنے مقصد میں سچا ہو اور لگن پکی ہو تو کامیابی کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ خواجہ سرا شعیب خان کے ساتھ بھی ہوا، جس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کسی بھی مشکل کو آڑے نہیں آنے دیا اور اپنی ہمت اور بے پناہ محنت سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ خواجہ سراؤں کی ظاہری چمک دمک، چہرے پر میک اپ کی تہہ اور ان کے اونچے قہقہے ان کی دکھ بھری زندگی کی اصل حقیقت چھپاتے ہیں۔ ایسے میں خواجہ سرا پیدائش سے لیکر موت تک جن مسائل و مشکلات سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے لیے زرا مشکل ہے۔

33 سالہ شعیب خان کو بھی اپنی زندگی میں کافی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک معاشرے کے امتیازی سلوک اور معاشرتی رویوں کے علاوہ دیگر مسائل کا بھی انہیں سامنا رہا۔ تاہم انہوں نے ان تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے اپنے مستقبل کو سنوارنے پر توجہ مرکوز کی۔شعیب کو پہلے آئیر لائن میں بطور فلائٹ اٹینڈنٹ کام کرنے کا موقع ملا اور آج یہ کارپوریٹ کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر اپنے فرائز بخوبی انجام دے رہی ہیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 5 ہزار قریب ہے تاہم آج کی تاریخ میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ سال 2014 میں اگرچہ عدالت اعظمی نے ایک فیصلے کے تحت خواجہ سراؤں کو تیسرے جنس کے طور پر درجہ دیا مگر اس فیصلے کی رو سے بھی انہیں ابھی تک وہ شناخت نہیں مل پائی ہے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن اور خواجہ سراؤں کی حالت زار

شیعب خان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے اور تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے۔ جب تک خواجہ سراوں کو معاشرے کا حصہ قبول نہیں کیا جائے گا ان کی حالت زار بہتر نہیں ہوگی۔ ٹرانس خاتون شعیب خان نے اپنی لگن اور مثبت سوچ سے نہ صرف سماج میں اپنی الگ پہچان بنائی، بلکہ یہ خواجہ سرا برادری کے لیے بھی مشعل راہ بن رہی ہیں۔

Last Updated : Jun 5, 2023, 4:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.