ETV Bharat / state

Old Dyeing Unit of Kashmir: اپنے پشتنی کام کو زندہ رکھنے والا کشمیری رنگریز

author img

By

Published : Jul 12, 2022, 4:53 PM IST

Updated : Jul 12, 2022, 7:32 PM IST

شہر خاص کے بوہری کدل علاقے میں بشیر احمد کا ڈائینگ یونٹ 122 سالہ پرانا ہے اور یہ اپنے پشتنی کام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر دستکاری صنعت میں ڈائینگ انڈسٹری ایک اہم ستون کے طور مانی جاتی ہے کیونکہ اسی دھاگے سے رنگ برنگے شال، قالین اور دیگر دستکاری مصنوعات تیار کی جاتی ہے۔Old Dyeing Unit of Kashmir

meet-bashir-ahmad-ragrez-who-runs-122-year-old-dyeing-unit-in-kashmir
اپنے پشتنی کام کو زندہ رکھنے والا کشمیری رنگریز

سرینگر: ابلتے ہوئے رنگین پانی میں بے رنگ دھاگے کو رنگ دار بنانے والے بشیر احمد رنگریز دہائیوں پرانی اس صنعت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بھاپ سے بھرے اسی ماحول اور مختلف رنگ کے امتزاج سے دھاگے کو خوبصورت بنانے کا یہ محنت سے بھرا کام رنگریز گزشتہ 40 برسوں سے کرتا آیا ہے۔

کشمیری رنگریز
شہر خاص کے بوہری کدل علاقے میں بشیر احمد کا یہ یونٹ 122 سالہ پرانا ہے اور یہ اپنے پشتنی کام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر دستکاری صنعت میں ڈائینگ انڈسٹری ایک اہم ستون کے طور مانی جاتی ہے کیونکہ اسی دھاگے سے رنگ برنگے شال، قالین اور دیگر دستکاری مصنوعات تیار کی جاتی ہے۔Old Dyeing Unit of Kashmirدھاگے کو رنگ دار بنانے کا کام آسان نہیں ہے، اس کے لیے باریک بینی سے رنگوں کا انتخاب کر کے ہو بہو شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔ پھر رنگ کو اُبلتے ہوئے پانی میں ڈال کر دھاگے کو اتنی دیر تک بھگایا کیا جاتا جتنی دیر تک وہ اس رنگ میں نہ ڈھل جائے۔


ماضی میں اس طرح کے ڈائنگ یونٹس شہر خاص میں کئی سارے تھے لیکن آج کی تاریخ میں اس طرح کے 3 یا 4 یونٹ ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جن میں سے بشیر احمد رنگریز کا یہ سب سے پرانا ڈائینگ یونٹ بھی شامل ہیں۔ عصر حاضر میں مشینوں کے عروج اور دیگر وجوہات کی بنا پر اگرچہ وہ سبھی بند ہوچکے ہیں لیکن مہنگائی کے اس دور کے باوجود بھی بشیر احمد رنگریز دن بھر کے چند سو روپے کمانے پر اکتفا کیے ہوئے اپنے آبا و اجداد کے کام کو سنھبالے ہوئے ہیں۔

بشیر احمد کہتے ہیں پرانے دور میں اس کام میں آج کے مقابلے میں کافی زیادہ محنت تو تھی لیکن کمائی بھی اچھی خاصی تھی۔ آج کل اتنی محنت نہیں ہے اور کمائی بھی نا کے برابر ہے۔ پانی اُبالنے کےلیے چولہے میں لکڑی یا تیل کا استعمال کیا جاتا تھا اور آج یہ سب گیس میں تبدیل ہوگیا۔ وہیں قدرتی جڑی بوٹیوں سے رنگ تیار کرنے کی جگہ کیمائی ڈائی نے لی۔

پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے بشیر احمد کہتے ہیں کہ ایک دن میں تقریباً سو کلو دھاگے کو اس یونٹ میں رنگ کیا جاتا تھا لیکن آج 3 کلو سے زیادہ دھاگے کی رنگائی کا آرڈر نہیں آتا ہے۔

مزید پڑھیں:


بشیر احمد رنگریز کے اس پرانے یونٹ میں مزید 5 لوگ اپنا روزگار کماتے کرتے تھے البتہ رنگائی کا کام محدود ہونے کی وجہ سے اب یہ یہاں اکیلے ہی کام کرتے ہیں۔ بشیر احمد کا ایک بیٹا ڈاکٹر اور دوسرا انجینئیر ہے۔ ایسے میں ان کے وارثین میں سے کسی نے آگے بڑھانے کی دلچسپی نہیں لی ہے۔ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ میرا یہ پشتینی کام تب تک ہی زندہ ہے جب تک میں زندہ ہوں۔

بشیر احمد رنگریزکو اپنے اس ڈائینگ یونٹ سے اگرچہ کوئی خاص کمائی حاصل نہیں ہوتی ہے التبہ اپنے آبا و اجداد کی وراثت کو زندہ رکھنے میں انہیں قلب سکون حاصل ہوتا ہے۔

سرینگر: ابلتے ہوئے رنگین پانی میں بے رنگ دھاگے کو رنگ دار بنانے والے بشیر احمد رنگریز دہائیوں پرانی اس صنعت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بھاپ سے بھرے اسی ماحول اور مختلف رنگ کے امتزاج سے دھاگے کو خوبصورت بنانے کا یہ محنت سے بھرا کام رنگریز گزشتہ 40 برسوں سے کرتا آیا ہے۔

کشمیری رنگریز
شہر خاص کے بوہری کدل علاقے میں بشیر احمد کا یہ یونٹ 122 سالہ پرانا ہے اور یہ اپنے پشتنی کام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر دستکاری صنعت میں ڈائینگ انڈسٹری ایک اہم ستون کے طور مانی جاتی ہے کیونکہ اسی دھاگے سے رنگ برنگے شال، قالین اور دیگر دستکاری مصنوعات تیار کی جاتی ہے۔Old Dyeing Unit of Kashmirدھاگے کو رنگ دار بنانے کا کام آسان نہیں ہے، اس کے لیے باریک بینی سے رنگوں کا انتخاب کر کے ہو بہو شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔ پھر رنگ کو اُبلتے ہوئے پانی میں ڈال کر دھاگے کو اتنی دیر تک بھگایا کیا جاتا جتنی دیر تک وہ اس رنگ میں نہ ڈھل جائے۔


ماضی میں اس طرح کے ڈائنگ یونٹس شہر خاص میں کئی سارے تھے لیکن آج کی تاریخ میں اس طرح کے 3 یا 4 یونٹ ہی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جن میں سے بشیر احمد رنگریز کا یہ سب سے پرانا ڈائینگ یونٹ بھی شامل ہیں۔ عصر حاضر میں مشینوں کے عروج اور دیگر وجوہات کی بنا پر اگرچہ وہ سبھی بند ہوچکے ہیں لیکن مہنگائی کے اس دور کے باوجود بھی بشیر احمد رنگریز دن بھر کے چند سو روپے کمانے پر اکتفا کیے ہوئے اپنے آبا و اجداد کے کام کو سنھبالے ہوئے ہیں۔

بشیر احمد کہتے ہیں پرانے دور میں اس کام میں آج کے مقابلے میں کافی زیادہ محنت تو تھی لیکن کمائی بھی اچھی خاصی تھی۔ آج کل اتنی محنت نہیں ہے اور کمائی بھی نا کے برابر ہے۔ پانی اُبالنے کےلیے چولہے میں لکڑی یا تیل کا استعمال کیا جاتا تھا اور آج یہ سب گیس میں تبدیل ہوگیا۔ وہیں قدرتی جڑی بوٹیوں سے رنگ تیار کرنے کی جگہ کیمائی ڈائی نے لی۔

پرانے دور کو یاد کرتے ہوئے بشیر احمد کہتے ہیں کہ ایک دن میں تقریباً سو کلو دھاگے کو اس یونٹ میں رنگ کیا جاتا تھا لیکن آج 3 کلو سے زیادہ دھاگے کی رنگائی کا آرڈر نہیں آتا ہے۔

مزید پڑھیں:


بشیر احمد رنگریز کے اس پرانے یونٹ میں مزید 5 لوگ اپنا روزگار کماتے کرتے تھے البتہ رنگائی کا کام محدود ہونے کی وجہ سے اب یہ یہاں اکیلے ہی کام کرتے ہیں۔ بشیر احمد کا ایک بیٹا ڈاکٹر اور دوسرا انجینئیر ہے۔ ایسے میں ان کے وارثین میں سے کسی نے آگے بڑھانے کی دلچسپی نہیں لی ہے۔ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ میرا یہ پشتینی کام تب تک ہی زندہ ہے جب تک میں زندہ ہوں۔

بشیر احمد رنگریزکو اپنے اس ڈائینگ یونٹ سے اگرچہ کوئی خاص کمائی حاصل نہیں ہوتی ہے التبہ اپنے آبا و اجداد کی وراثت کو زندہ رکھنے میں انہیں قلب سکون حاصل ہوتا ہے۔

Last Updated : Jul 12, 2022, 7:32 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.