سرینگر شہر کے خانقاہ معلیٰ کی رہنے والی ستر برس کی فاطمہ بیگم کا بیٹا گزشتہ 25 برس سے حراست میں ہے۔ سنہ 1996 میں دہلی اور راجستھان کے جے پور میں ہوئے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر فاطمہ کے بیٹے جاوید احمد خان کو دیگر چار کشمیری تاجروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
ان چار افراد میں سے تین کو گزشتہ برس جولائی ماہ کی 22 تاریخ کو راجستھان کی عدالت عالیہ نے باعزت بری کردیا تاہم جاوید خان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
فاطمہ کا کہنا ہے کہ "جب گزشتہ برس ان کے علاقے کے دو نوجوان - مرزا نثار حسین اور لطیف احمد 24 برس جیل میں سزا کاٹنے کے بعد واپس اپنے گھر پہنچے تو میں بہت خوش ہوئی۔ مجھے اُمید تھی کہ میرے بیٹے کی رہائی بھی جلد ہی ہوگی۔ لیکن ایسا آج تک نہیں ہوا۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ اگر وہ سب بے قصور تھے تو میرا بیٹا قصوروار کیسے ٹھہرا؟"
بیٹے کی تصویر کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتی فاطمہ بیگم فاطمہ اس وقت اپنے مکان میں اکیلی رہتی ہیں اور کبھی کبھی ان کی بڑی بیٹی ان کا حال چال پوچھنے آجاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "گزشتہ برس ماہ جولائی میں میرے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ پھر یہ خبر آئی کہ میرے بیٹے کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اس کا کیا قصور تھا۔ وہ اس وقت دلی کے تہاڑ جیل میں قید ہے۔"فاطمہ شوہر کے انتقال، بیٹے کو جیل اور بیٹی سے دوری کے سبب اس قدر افسردہ ہوئیں کہ متعدد طرح کے امراض نے انہیں گھیر لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکتے اور دکھائی بھی بہت کم دیتا ہے۔ فاطمہ دبی آواز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں "میں نے گزشتہ سات برسوں سے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا۔ تہاڑ جیل سے وہ کبھی پانچ منٹ کے لیے کال کرتا ہے بس خبر خیریت پوچھنے کا ہی موقع مل پاتا ہے۔ جیل میں ان سے ملاقات کی اجازت صرف والدین کو ہے۔ اس لئے جب تک میرے شوہر ٹھیک تھے ہم ان سے ملاقات کرنے جایا کرتے تھے۔ ملاقات کے وقت بھی وہاں تعینات پولیس اہلکار کافی مشکلات پیدا کرتے تھے۔ لیکن بیٹے کا دیدار وہ سب مشکلات دور کردیتی تھی۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "بڑھاپے کی وجہ سے اب ہم ان سے ملاقات کرنے نہیں جاتے۔ اتنا لمبا سفر ممکن نہیں اور شوہر کے گزرنے کے بعد تو زیادہ ہی مشکل ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد عائد پابندیوں اور اس کے بعد عالمی وبا کے پیش نظر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میری کوئی آمدنی نہیں ہے۔ میرے شوہر سرکاری امپوریم میں کام کرتے تھے ان کی جو بھی پینشن ملتی ہے وہ میرے علاج میں خرچ ہوجاتی ہے۔
"کیا آپ نے اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے کوئی قانونی مدد حاصل کی؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ "میرے بیٹے کا معاملہ اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ لیکن کبھی سماعت نہیں ہوتی کیونکہ وکیل فیس کے بغیر سماعت میں حاضر نہیں ہوتے۔ مجھے نہیں پتا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ میں لاچار ہوں اور مدد کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "میرا بیٹا بے قصور ہے یہ میں جانتی ہوں لیکن اس کے لیے میں کچھ نہیں کرسکتی۔ میں بے بس ہوں۔ اللہ مالک ہے، وہی حفاظت کرے گا۔ میرے ہمسایہ اکثر روز مرہ کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں جس کی وجہ سے میں دن گزار رہی ہوں۔ نہیں تو مجھے زندگی سے اب کوئی آس نہیں ہے۔"
ان کا کہنا ہے کہ" جاوید کو جب گرفتار کیا گیا تھا وہ تقریبا 25 برس کے تھے۔ تب سے وہ کبھی ایک جیل میں تو کبھی دوسرے جیل میں منتقل کئے گئے۔ گزشتہ برس پانچ جولائی کو جب جاوید احمد خان کے والد شفیع احمد خان کا انتقال ہوا اس موقع پر بھی نہیں پیرول پر رہا نہیں کیا گیا۔یہ بھی پڑھیں: رامبن: میڈیا ٹرائل کا شکار نوجوان دو ماہ بعد بے گناہ ثابت
واضح رہے کہ گزشتہ برس ماہ جولائی کی 25 تاریخ کو سرینگر کے رہنے والے محمود علی، مرزا نثار حسین اور لطیف احمد کو 24 برس بعد رہا کیا گیا۔