ذرائع کے مطابق حکام نے حلف برداری کی تقریبات سادہ طریقے سے انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حلف برداری کے بعد ہی جموں و کشمیر اور لداخ کی باضابطہ تقسیم کاری ہوگی۔
حکام نے جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر کی حلف برداری کا اہتمام سرینگر میں ہی کیا ہے حالانکہ سرینگر میں سرکاری دفاتر دربار مو کی وجہ سے پہلے ہی بند ہوچکے ہیں۔
جموں و کشمیر کی ریاست کا تنزل اور تقسیم کاری ، مرکزی حکومت کے اس متنازع فیصلے کے بعد ہوا ہے جس میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 5 اگست کو پارلیمنٹ میں ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کے بعض حصوں کو منسوخ کرنے سے متعلق قرارداد پیش کی جسے زبردست ہنگامہ آرائی کے بعد منظور کرلیا گیا۔ امت شاہ نے اسی روز ریاست کی تنظیم نو سے متعلق ایک بل بھی پیش کیا جس کے پس منظر میں ریاست کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔
جہاں جموں و کشمیر کے مرکزی زیر انتظام علاقے میں لیجسلیٹیو اسمبلی ہوگی، لداخ میں اسمبلی کے بجائے راست طور پر وزارت داخلہ کے تحت ایل جی کی حکومت ہوگی۔
31 اکتوبر کے بعد سے جموں کشمیر میں 106 مرکزی قوانین نافذ ہوں گے، اور اس کے ساتھ 166 ریاستی قوانین بشمول گورنر قانون بھی نافذ ہوجائے گا۔جبکہ ری آرگنائزیشن ایکٹ کے مطابق 153 ریاستی قوانین ختم ہوجائیں گے۔
جموں کشمیر ریاست کی دارلحکومت ہر چھے ماہ کے بعد کشمیر سے جموں حسب سابق منتقل ہوتی رہیگی۔
مرکزی حکومت نے جموں کشمیر اور لداخ کے اثاثے جات کو دو مرکزی زیر انتظام ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی مگر کمیٹی نے ابھی تک حکومت کو رپورٹ پیش نہیں کی۔