سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ کی جانب سے گذشتہ سال فروری میں مزمل منظور وار کی نظر بندی کے حکم کو منسوخ کر دیا تھا تاہم اس (منسوخی) کے 467 دن گزرنے کے باوجود وہ ہنوز قید میں ہے۔ مزمل منظور وار کی جانب سے اپنے والد کے ذریعے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے، ہائی کورٹ کے جسٹس راہل بھارتی نے کہا کہ ’’اس عدالت کے سامنے ایک انتہائی پریشان کن منظر پیش کیا گیا ہے جسے معمول کے مطابق نمٹانے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘‘
تمام دلائل سننے کے بعد جسٹس بھارتی نے وار پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کرنے کو منظوری دینے والے ضلع مجسٹریٹ کو بھی 29 مئی کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا، نیز وار کو بھی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ یاد رہے کہ جموں اور کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، 1978 (پی ایس اے)، حکام کو کسی بھی شخص کو دو سال تک بغیر کسی ٹھوس الزام کے قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ سترہ اگست 2022 کو ضلع مجسٹریٹ، بارہمولہ کے ذریعے جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ، 1978 کی دفعہ 8(اے ) کے تحت درخواست گزار کی احتیاطی حراست کے حوالے سے پاس کردہ حکم نامے کو (ہائی کورٹ کی جانب سے) منسوخ کر دیا گیا کیونکہ ’’حکم نامہ پاس کرتے وقت ضلع مجسٹریٹ، بارہمولہ نے ذہن کی استعمال نہیں کیا تھا۔‘‘ اس کا انکشاف عدالت کے 11 فروری 2022 کے حکم نامے سے ہوا ہے۔
بارہ مئی 2023 کو شائع ہونے والے ہائی کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق، ’’درخواست گزار کی احتیاطی حراست کے حکم کو منسوخ کرنے کے نتیجے میں اس عدالت کی جانب سے ڈبلیو پی (سی آر ایل) نمبر 146/2020 کے رٹ جواب دہندگان کو درخواست گزار کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، الا یہ کہ دوسرے کسی معاملے میں (حراست کی) ضرورت نہ ہو۔‘‘ نظر بندی کے حکم کو منسوخ کیے جانے کے باوجود درخواست گزارکی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی اور وہ اب بھی آگرہ سینٹرل جیل میں قید ہے۔ درخواست گزار اور اس کے والد نے اس رٹ پٹیشن کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا ہے تاکہ اس کی رہائی اور مسلسل غیر قانونی حراست کا معاوضہ دیا جا سکے۔
معاملے کی سنگینی اور بھارتی آئین کی دفعہ 21 کے ذریعے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی روشنی میں، عدالت نے بارہمولہ کے ضلع مجسٹریٹ کو نوٹس دیا ہے اور اسے حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کو آئندہ تاریخ کو عدالت میں پیش کرے۔ سماعت کے دوران خود ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو بھی ذاتی طور پر کورٹ میں حاضر ہونا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: تین کشمیری نوجوانوں پر عائد پی ایس اے کالعدم قرار
دلچسپ امر ہے کہ 1989 میں جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد سے پی ایس اے کا کشمیر میں من مانی طور پر استعمال کیے جانے کی ایک تاریخ ہے۔ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے سرکار نے تین وزرائے اعلیٰ سمیت صحافیوں اور مین اسٹریم سیاست دانوں کو جیل بھیجنے کے لیے بھی پی ایس اے کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔ سرکار نے ابتدائی طور پر عسکریت پسندوں، پتھربازی میں ملوث نوجوانوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف پی ایس اے کا استعمال کیا۔