ETV Bharat / state

شملہ معاہدے کی سالگرہ پر کشمیری سیاستدانوں کا رد عمل - لائن آف کنٹرول

بھارت اور پاکستان کے درمیان 47 سال قبل آج ہی کے دن شملہ معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے دستخط کیے تھے۔

شمالہ معاہدے کی سالگرہ پر کشمیری سیاستدانوں کا رد عمل
author img

By

Published : Jul 2, 2019, 5:01 PM IST

اس حوالے سے کشمیری سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پائیدار امن کے لئے کشمیر سمیت تمام مسائل ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا وعدہ کیا گیا اور جنگ تو در کنار اس کی دھمکی سے بھی گریز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ تاہم اب تک نہ تو کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی لائن آف کنٹرول خاموش ہے، آج بھی آر پار فوجی اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر حکیم محمد یاسین کا کہنا تھا کہ ’’شملہ معاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے۔‘‘

شمالہ معاہدے کی سالگرہ پر کشمیری سیاستدانوں کا رد عمل

انکا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آج 47 سال گزر چکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر وہیں ہے، حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک شملہ معاہدے کی سالگرہ منا رہے ہیں اچھی بات ہے۔ تاہم کشمیری کس بات کی خوشی منائیں ان کے لیے تو کچھ کیا ہی نہیں گیا۔‘‘

وہیں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما علی محمد ساگر کا ماننا ہے کہ ’’معاہدے تو بہت سارے کیے گئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی لائن آف کنٹرول کے آس پاس رہنے والے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہمارے بچے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ کشمیر مسئلے کا حل گول میز پر مذاکرات سے ہی ہوگا۔ دونوں ملکوں کو کشمیر کے پرامن حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔‘‘

نٹور سنگھ کے حالیہ بیان کے حوالے سے ساگر نے کہا کہ ’’معاہدے کو جیت اور ہار کے پیمانے سے دیکھنا غلط بات ہے۔ معاہدہ امن اور مسائل کے حل کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں جس میں کسی کی جیت ہو اور کسی کی ہار۔‘‘

جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ کی جنرل سیکریٹری شہلا رشید کا کہنا ہے کہ ’’شملہ معاہدہ بنگلہ دیش جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت پر زور دیا گیا تھا لیکن ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ مذاکرات سے دوری بنا لیتے ہیں۔ کشمیر کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے اسی لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔‘‘

اس حوالے سے کشمیری سیاست دانوں کا ماننا ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پائیدار امن کے لئے کشمیر سمیت تمام مسائل ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا وعدہ کیا گیا اور جنگ تو در کنار اس کی دھمکی سے بھی گریز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ تاہم اب تک نہ تو کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی لائن آف کنٹرول خاموش ہے، آج بھی آر پار فوجی اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر حکیم محمد یاسین کا کہنا تھا کہ ’’شملہ معاہدہ اس بات کا گواہ ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے۔‘‘

شمالہ معاہدے کی سالگرہ پر کشمیری سیاستدانوں کا رد عمل

انکا مزید کہنا تھا کہ ’’یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آج 47 سال گزر چکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر وہیں ہے، حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک شملہ معاہدے کی سالگرہ منا رہے ہیں اچھی بات ہے۔ تاہم کشمیری کس بات کی خوشی منائیں ان کے لیے تو کچھ کیا ہی نہیں گیا۔‘‘

وہیں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما علی محمد ساگر کا ماننا ہے کہ ’’معاہدے تو بہت سارے کیے گئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی لائن آف کنٹرول کے آس پاس رہنے والے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہمارے بچے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ کشمیر مسئلے کا حل گول میز پر مذاکرات سے ہی ہوگا۔ دونوں ملکوں کو کشمیر کے پرامن حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔‘‘

نٹور سنگھ کے حالیہ بیان کے حوالے سے ساگر نے کہا کہ ’’معاہدے کو جیت اور ہار کے پیمانے سے دیکھنا غلط بات ہے۔ معاہدہ امن اور مسائل کے حل کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں جس میں کسی کی جیت ہو اور کسی کی ہار۔‘‘

جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ کی جنرل سیکریٹری شہلا رشید کا کہنا ہے کہ ’’شملہ معاہدہ بنگلہ دیش جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت پر زور دیا گیا تھا لیکن ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ مذاکرات سے دوری بنا لیتے ہیں۔ کشمیر کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے اسی لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔‘‘

Intro:بھارت اور پاکستان کے درمیان 47 سال پہلے آج کے دن شملہ معاہدہ کیا گیا جس میں مسئلہ کشمیر کے حل اور ایک دوسرے کی خود مختاری کے احترام سمیت متعدد وعدے اور دعوے کیے گئے۔


Body:کشمیری سیاست دانوں کا ماننا ہے کی کہ " شملہ معاہدے کے تحت پائیدار امن کے لئے کشمیر سمیت تمام مسائل ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا وعدہ کیا گیا اور جنگ تو در کنار اس کی دھمکی سے بھی گریز کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوسکا اور لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے کے فوجی اور عام شہری ہلاک کرنے کا سلسلہ بھی نہ روکا جا سکا۔

پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر حکیم محمد یاسین کا کہنا ہے کہ شملہ معدے کی وجہ سے کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کشمیر مسئلہ نہیں ہے۔ یہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ آج 47 سال گزر چکے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر وہی ہیں حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ دونوں ملک شملہ معاہدے کی سالگرہ منا رہے ہیں اچھی بات ہے۔ کشمیری کس بات کی خوشی منائیں ان کے لیے تو کچھ کیا ہی نہیں گیا۔

وہیں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما علی محمد ساگر کا مانا ہے مہدے تو بہت سارے کیے گئے لیکن زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوا۔ آج بھی لائن آف کنٹرول کے آس پاس رہنے والے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ہمارے بچے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔ کشمیر مسئلے کا حل گول میز پر مذاکرات سے ہی ہوگا۔ دونوں ملکوں کو کشمیر کے پرامن حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔

نٹور سنگھ کے بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ معاہدے کو کو جیت اور ہاں کے پیمانے سے دیکھنا غلط بات ہے۔ معاہدہ امن اور مسائل کے حل کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں کسی کی جیت ہو اور کسی کی ہار۔

جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ کی جنرل سیکرٹری شہلا رشید کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدہ بنگلہ دیش جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت پر زور دیا گیا تھا لیکن ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ مذاکرات سے دوری بنا لیتے ہیں۔ کشمیر کا اگر کوئی حل ہے تو وہ صرف بات چیت سے ہے اسی لیے مذاکرات کا سلسلہ اللہ جاری رہنا چاہیے۔




Conclusion:Bytes:

* Hakeem Muhammad Yaseen, President, People's Democratic Front (PDF)

* Ali Muhammad Sagar, Senior Leader, National Conference (NC)

* Shehla Rashid Shora, General Secretary, Jammu and Kashmir People's Movement (JKPM)
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.