مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 13فروری کو لوک سبھا میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ سرکار نے سنہ 2022 تک وادی کشمیر میں تمام مہاجر کشمیری پنڈتوں کی بازآباکاری کا فیصلہ کیا ہے۔
سنہ 1941 کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی کا تقریبا 15 فیصد ہندو اقلیتوں - بشمول برہمنوں اور شیویزم کے پیروکاروں - پر مشتمل تھا۔ 1981 تک ان کی آبادی سکڑ کر 4 فیصد رہ گئی تھی، جس کا تذکرہ راہل پڈتنا نے اپنی ایک یادداشت ’’in Our moon has blood clots‘‘ میں کیا ہے۔
کشمیری پنڈتوں کی ہجرت
جموں وکشمیر حکومت نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 1989 سے 2004 کے عرصے کے دوران خطے میں قتل کیے گئے 1،400 ہندوؤں میں سے پنڈت برادری کے 219 افراد شامل ہیں۔ جس کے بعد پنڈت برادری کے کسی بھی فرد کو ہلاک نہیں کیا گیا۔
حکومتی اعداد و شمار کی نفی کرتے ہوئے کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم ’پنن کشمیر‘ نے ایک فہرست شائع کی جس میں 1990 کے بعد 1،341 پنڈتوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں؛ غیرملکی سفارتکاروں کا وفد جموں و کشمیر کے دورے پر
سیاسی سائنسدان الیگزینڈر ایونس کے مطابق وادی میں مقیم 95 فیصد کشمیری پنڈت، جن کی تعداد 1،50،000 سے 1،60،000 افراد ہوگی، 1990 میں وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
سنہ 2010 میں ناروے کی رفیوجی کائونسل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 کے بعد سے 2،50،000 سے زیادہ پنڈت بے گھر ہوئے ہیں۔
رجسٹرڈ کشمیر پنڈت کنبے
حکومت جموں و کشمیر کے مطابق 1990 کی دہائی میں وادی کشمیر میں عسکریت پسندی کی شروعات کے بعد وادی سے جموں سمیت ملک کی دیگر ریاستوں /مرکزی زیر انتظام خطوں کی جانب نقل مکانی کرنے والے پنڈت خاندانوں کی تعداد مندرجہ ذیل ہے:
ریاست/یو ٹی | مہاجر پنڈت کنبے |
جموں | 43,618 |
دہلی/این سی آر | 19,338 |
دیگر ریاستیں/مرکزی علاقے | 1995 |
کل تعداد | 64,951 |
بی جے پی کے انتخابی منشور میں پنڈتوں کی واپسی پر زور
بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ حکومت کشمیری پنڈتوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے گی۔ جبکہ پارٹی کے 2014 کے منشور میں کشمیری پنڈتوں کی ناموس، سلامتی اور معاشی استحکام کے ساتھ ان کی آبائی سرزمین پر واپسی کا یقین دلایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں؛ غیرملکی سفارتکاروں کے دورۂ کشمیر پر سیاسی رہنماؤں کا رد عمل
بازیابی کے ابتدائی وعدے
سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مرکزی بجٹ 2014 میں کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری کے لئے 500 کروڑ روپئے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ 2017 میں مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ نے سری نگر میں پنڈتوں کے لئے 6000 ٹرانزٹ رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے حکومت کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، تاہم اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں یو پی اے حکومت نے اپریل 2008میں پنڈتوں کی وطن واپسی اور بازآبادکاری کے لئے 1,618کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا، اس سے قبل 2004میں بھی انہوں نے اسی طرح کے پیکیج کے اعلان کیا تھا۔
وہ واقعات جو کشمیر پنڈتوں کی نقل مکانی کا باعث بنے
سنہ 1984 میں جموں و کشمیر میں فاروق عبد اللہ کی حکومت کا ان کے بہنوئی غلام محمد شاہ نے تختہ پلٹ دیا۔ شاہ جنہیں گلہ شاہ بھی کہا جاتا ہے اس کے بعد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے۔ گلہ شاہ کا دور حکومت مستحکم نہ تھا ان کے دور اقتدار میں کئی واقعات رونما ہوئے۔
بعد میں 1987 کے انتخابات ہوئے جس میں مبینہ طور پر کانگریس اور فاروق عبداللہ نے دھاندلی کی۔ دھاندلی زدہ انتخابات علیحدگی پسندوں کے عروج کا باعث بنے۔ انتخابات نے معاملے کو مزید خراب کردیا اور علیحدگی پسند سوچ پروان چڑھی اور اس دوران جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) سرگرم عمل ہوا۔ اس دوران مذہبی منافرت بھی پھیل گئی۔
مزید پڑھیں؛ جموں و کشمیر: این سی کی جانب سے حد بندی کے عمل کو آگے نہ بڑھانے کی اپیل
جولائی 1988 میں دو بم دھماکوں سے سری نگر لرز اٹھا اور ستمبر 1989 میں پنڈتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ٹیکا لال ٹپلو کو ان کی رہائش گاہ کے باہر مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔
سنہ 1990 میں فاروق عبداللہ کے مستعفی ہونے کے بعد جموں و کشمیر میں صدر راج کا آغاز ہوا۔ اس دوران سیاسی بدامنی اور ہندو مخالف تحریک بھی شروع ہوئی جو پنڈتوں کے خروج کا باعث بنی۔ جنوری 1990 میں وادی بھر کی مساجد میں بھارت مخالف اور پنڈت مخالف نعرے بازی کا سلسلہ شروع ہوا جو کئی مہینوں تک جاری رہا۔ 1990کے اوائل میں کئی بے گناہ پنڈتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور متعدد کو ہلاک بھی کیا گیا۔ سال کے آخر تک تقریبا 350،000 پنڈت وادی سے فرار ہوچکے تھے اور جموں سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کی طرف منتقل ہو گئے، وادی میں کچھ ہی پنڈت گھرانے باقی رہے جنوں نے ہجرت نہیں کی۔