یوم آزادی کے موقع پر وادی کے بیشتر علاقوں میں پابندیاں عائد تھیں اور آج صبح سے ہی انٹرنیٹ خدمات کو بھی معطل کیا کیا تھا، لوگ اپنے گھروں میں ہی محدود تھے جبکہ سری نگر شہر کے خارجی و داخلی علاقے خاردار تاروں سے سیل کیے گئے تھے۔ وہیں دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر سرینگر کے لال چوک علاقے میں واقع گھنٹہ گھر پر ترنگا لہراتے ہوئے ایک تصویر وائرل ہوئی۔ اس تصویر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈران نے ٹوئٹر پر مسلسل شئر کیا۔
بی جے پی کے لداخ سے رکن پارلیمان جامیانگ نامگیال نے گھنٹہ گھر پر ترنگا لہراتے ہوئے ایک تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے لیے گئے 15اگست کے فیصلے کی تعریف کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد کیا بدلہ؟ سرینگر کا لال چوک جو ملک مخالف سرگرمیاں، خاندانی سیاست دانوں کا اڈہ بنا ہوا تھا آج قومیت کے تاج میں تبدیل ہوا ہے۔ میں اپنے ہم وطنوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے حق میں رائے دہندگی کی۔‘‘
وہیں عام آدمی پارٹی کے سابق لیڈر، کپل مشرا، جو اب بی جے پی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں نے بھی اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ترنگا لال چوک میں۔‘‘
حیران کن بات یہ ہے کہ ان دونوں لیڈران نے تصویر کو ٹویٹ کرنے سے قبل زمینی حقائق جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ تصویر آج کی نہیں بلکہ سن2010 کی ہے۔ اور اصل تصویر میں ترنگا کہیں بھی موجود نہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے جب گوگل ریورس سرچ کا استعمال کرتے ہوئے تصویر کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ تصویر سنہ 2010 میں صحافی مبشر مشتاق نے اپنی خبر ’’پیراڈائز لاسٹ‘‘ میں استعمال کی تھی۔ اور اسی وقت یہ پہلی بار اپ لوڈ بھی کی گئی تھی، جس میں ترنگا موجود نہیں۔
بی جے پی لیڈران کے ذریعے شیئر کی گئی تصویر کو غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تصویر بہت پرانی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب گھنٹہ گھر پر ترنگا لہرانے کے دعوے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر کیے گئے ہوں۔ اس سے قبل بھی ایسی کوششیں کی گئی ہیں اور اکثر دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔
جب ای ٹی وی بھارت نے اس تعلق سے سائبر سیل سے رجوع کیا تو انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ تصویر پرانی ہے اور ان حالات میں انہیں سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر شیئر کرنا صحیح نہیں۔
اس ضمن میں کیا کارروائی کی جائے گی؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ابھی معاملہ زیر غور ہے۔‘‘